اسلام ٹائمز کے مطابق:

ایران مقبوضہ فلسطین کی جعلی سرحد پر پہنچ چکا ہے: صابر ابو مریم

اسرائیل نے اسلامی ممالک کے خلاف مسلحانہ کاروائی کی ہے لہذا اسلامی ممالک پر اس کا قلع قمع کرنا واجب ہے / اسرائیل کی مدد کرنا حرام اور اسلام کی مخالفت کے مترادف ہے: امام خمینی(رح)

ID: 39214 | Date: 2015/03/03

"اسرائیل نے اسلامی ممالک کے خلاف مسلحانہ کاروائی کی ہے لہذا اسلامی ممالک پر اس کا قلع قمع کرنا واجب ہے۔ اسلحہ کے خرید و فروخت یا تیل کے خرید و فروخت یا کسی دوسرے ذریعے سے اسرائیل کی مدد کرنا حرام اور اسلام کی مخالفت کے مترادف ہے۔" امام خمینی(رح)، صحیفہ نور، ج1، ص139


"کیا یہ اعتراض کرنے  کا حق نہیں کہ ہم یہ کہیں کہ بھائی کیوں مسلمانوں کا تیل کفار کو بیچ رہے ہو؟!! وہ کفار جو مسلمانوں اور اسلامی سر زمینوں کے خلاف جنگ کی حالت میں ہے"۔ امام خمینی(رح)، صحیفہ نور، ج1، ص165


 


صابر ابو مریم کا تعلق پاکستان کے شہر کراچی سے ہے، آپ فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے سیکرٹری جنرل و مرکزی ترجمان ہیں، پاکستان میں مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے کے لئے ہمیشہ سرگرم عمل رہتے ہیں، ماضی میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مختلف عہدوں پر فائز رہے اور فعالیت انجام دیتے رہے، اس کے علاوہ صابر ابو مریم مقالہ نویسی بھی کرتے ہیں اور آپ کے مقالات پاکستان کے معروف اخبار ”روزنامہ ایکسپریس“ میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔



اسلام ٹائمز: اٹلی کی پارلیمنٹ نے فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرنے کے حق میں علامتی قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی ہے، اس سے قبل بھی کئی مغربی ممالک کی پارلیمنٹ میں اس قسم کی قراردادیں منظور کی جاچکی ہیں، مگر پھر بھی مغربی ممالک میں برسراقتدار طبقہ اس پر عمل درآمد نہیں کر رہا ہے! مغربی ممالک کی پارلیمنٹ میں آزاد فلسطینی ریاست کے حق میں قراردادوں کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور کیوں مغربی حکومتیں ان پر عمل درآمد نہیں کر رہی ہیں۔؟ 
صابر ابومریم: بسم اللہ الرحمن الرحیم


جہاں تک اٹلی اور دیگر ممالک کے ایوانوں میں فلسطین کو ایک آزاد ریاست تسلیم کئے جانے کے حوالے سے قرار دادیں سامنے آئی ہیں، اس حوالے سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ایک مثبت اور خوش آئند فعل ہے کہ اب دور جدید میں ایوانوں میں بیٹھنے والے افراد کو فلسطینیوں پر ہونے والے صیہونی مظالم کا احساس ہونے لگا ہے، لیکن دراصل اگر دیکھا جائے تو مسئلہ فلسطین کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کون ہے؟ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین کو پیدا کرنے اور فلسطینیوں پر جاری مظالم کا ذمہ دار کون ہے؟ غاصب اسرائیل کے ناپاک وجود کے قیام کیلئے عملدرآمد کروانے میں کون آگے تھا؟ پھر اسی طرح چھ دہائیوں سے ملت مظلوم فلسطین پر ہونے والے صیہونی مظالم پر کس نے پردہ پوشی کی؟ اسی طرح کے اور بہت سارے سوالات ہیں کہ جن کے بارے میں گفتگو کی جاسکتی ہے، لیکن خلاصہ یہ ہے کہ غاصب اسرائیل کے قیام میں بوڑھا استعمار برطانیہ اور پس پشت امریکا تھے، جبکہ یورپی ممالک جن میں اٹلی، فرانس سمیت دیگر کئی ممالک شامل تھے، جو اس غاصب اور غیر قانونی ریاست کے قیام کے لئے حمایت کر رہے تھے، وہ کون سی ریاستیں تھیں کہ جنہوں نے اپنے ممالک سے یہودیوں کو اسرائیل جانے میں معاونت کی، یہ تمام مغربی دنیا کے ممالک اور ان کی حکومتیں تھیں۔
اب جہاں تک فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کئے جانے کے لئے یورپی ممالک میں قراردادوں کے منظور کئے جانے کا سلسلہ چل نکلا ہے، بظاہر تو یہ ایک اچھا اور مثبت اقدام نظر آتا ہے، لیکن ہمیں بہت باریک بینی اور تاکید کے ساتھ اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان قراردادوں کی تفصیل میں فلسطین کو جہاں ایک آزاد ریاست تسلیم کئے جانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، وہاں نابود ہوتی ہوئی غاصب اسرائیلی حکومت جو کہ غیر قانونی ریاست بنی ہوئی ہے، اسے بھی قانونی ریاست بنانے کی خاموش کوشش کی جا رہی ہے، یعنی آپ آسان الفاظ میں کہہ سکتے ہیں کہ کہیں اس فعل کے پیچھے ایسا تو نہیں کہ دو ریاستی حل کو فروغ دیا جائے، اگر ایسا ہے یا ایسا سوچا بھی گیا ہے تو یہ فلسطین اور مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ 1948ء سے بڑا نکبہ ثابت ہوگا اور صرف فلسطینیوں کے ساتھ ہی خیانت نہیں ہوگی، بلکہ پوری دنیا کے لئے سنگین نتائج برآمد ہوں گے، کیونکہ غاصب اسرائیل گذشتہ چھ دہائیوں میں اب تک اپنے جارحانہ اور جنگی عزائم سے یہ ثابت کرچکا ہے کہ اسرائیل صرف فلسطین اور مشرق وسطٰی کے لئے ہی خطرہ نہیں، بلکہ پوری دنیا کے انسانوں کے لئے خطرہ ہے، آخری بات میں یہی کہتا ہوں کہ یہ مغربی استعماری جھانسوں میں آنے کی بجائے ہمیں ملت مظلوم فلسطین کی بھرپور مدد کرنی چاہئیے اور فلسطین کی آزادی کا راستہ مغربی ممالک کی قراردادوں میں نہیں بلکہ اسلامی مزاحمت کے راستہ میں پنہاں ہے۔

اسلام ٹائمز: رواں سال 18 جنوری کو صہیونی فوج کے جنوبی شام کے علاقے قنیطرہ پر حملے میں حزب اللہ کے جوانوں سمیت ایرانی جنرل شہید ہوئے، جس کے جواب میں لبنان کے مقبوضہ سرحدی علاقے "شبعا فارم" میں حزب اللہ کے حملے میں سترہ صہیونی فوجی ہلاک ہوئے، عالمی میڈیا میں پہلی بار جنوبی شام کے علاقے قنیطرہ کا چرچا ہوا، اور اب فلسطین پر قابض ناجائز صہیونی حکومت کے وزیراعظم نیتن یاہو کا واویلا جاری ہے کہ ایران قنیطرہ سے نزدیک شام کے مقبوضہ سرحدی علاقے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کیخلاف تیسرا محاذ بنا رہا ہے، ایران کیجانب سے اسرائیلی سرحد کے نزدیک کی جانیوالی پیش قدمی پہلا اور اہم خطرہ ہے، آپ کی نظر میں اس ساری صورتحال کی حقیقت کیا ہے، کیا واقعی ایران مقبوضہ فلسطین کی سرحد کے قریب پہنچ چکا ہے۔؟ 
صابر ابومریم: دیکھیں جہاں تک شامی سرحدی علاقے قنیطرہ میں اسرائیلی حملے کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں واضح طور پر حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ بتا چکے ہیں کہ غاصب اسرائیلی دشمن بہت پہلے سے ہی ایرانی کمانڈر اور ان کے ساتھ رہنے والے دیگر حزب اللہ کے مجاہدین کو نشانہ بنانے کی کوششوں میں مصروف عمل تھا، تاہم شہادت حزب اللہ کے جوانوں اور قیادت کے لئے کوئی انوکھی بات نہیں بلکہ ایک اعزاز اور افتخار ہے، جس کے لئے حزب اللہ کی تمام قیادت اور جوان ہمیشہ تیار رہتے ہیں اور بارہا اپنی تقاریر میں اس کا برملا اظہار بھی کرتے رہے ہیں، عملی طور پر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے بھی ثابت کیا ہے کہ حزب اللہ شہادت کو پسند کرتی ہے نہ کہ اسرائیلیوں کی طرح موت سے خوف کھاتے ہیں۔


جی ہاں! حزب اللہ نے اسرائیلی حملے کا بھرپور اور منہ توڑ جواب دیتے ہوئے ایک بڑی کارروائی کی اور اسرائیل کے سترہ فوجیوں کو جہنم رسید کیا، یقیناً یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی، جسے بعد میں حزب اللہ نے اعلانیہ طور پر بیان بھی کیا، جہاں تک قنیطرہ میں ایران کی سرگرمیوں کے بارے میں نیتن یاہو کا واویلا کرنے کی بات ہے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ غاصب اسرائیلی حکومت انقلاب اسلامی ایران، اس کی شجاع افواج اور عوام سے بری طرح خوفزدہ ہوچکی ہے، کیونکہ اسرائیلی انتظامیہ نے گذشتہ چار سال میں شام میں کھولے جانے والے محاذ پر دیکھ لیا ہے کہ کس طرح ایران، حزب اللہ اور شام نے متحد ہو کر اسرائیلی منصوبوں کو خاک میں ملا دیا ہے، اسرائیل نے داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کو جنم دیا اور ان کی مالی مدد کے ساتھ ساتھ عرب ریاستوں کے ذریعے مسلح مدد بھی فراہم کی، لیکن چار سال کے عرصے میں شام کا ایک علاقہ بھی یہ دہشت گرد گروہ حاصل نہیں کرسکے اور اس کا کریڈٹ ایران اور حزب اللہ کو براہ راست جاتا ہے۔
اب جبکہ عالمی سامراجی قوتیں امریکا، اسرائیل اور ان کے عرب اتحادی شام اور عراق میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں اور دوسری طرف ایران کے P-5+1 ممالک کے ساتھ مذاکرات میں مسلسل کامیابیوں کے بعد ایران اور عالمی ایجنسی حتمی نتائج کی طرف جا رہے ہیں، تو یہ بات اسرائیل کے لئے سخت پریشانی اور خوف کا باعث بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی مسلسل کوشش ہے کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ایٹمی معاملات پر ہونے والے حتمی معاہدے کو کسی بھی طرح سبوتاژ کیا جائے۔ ایران کو کسی دوسرے محاذ پر مشغول کرکے ایران کو اس عالمی معاہدے سے پہنچنے والے بڑے فائدے سے کسی بھی طرح دور رکھا جائے۔ جہاں تک آپ کا سوال ہے کہ کیا ایران واقعی مقبوضہ فلسطین کی سرحد پر پہنچ چکا ہے؟ تو یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، آج بھی اگر جنوبی لبنان کے علاقے مارون الراس کا دورہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ وہاں مقبوضہ فلسطین کی سرحد کے ساتھ لبنانی سرحد ملی ہوئی ہے اور سڑک کے کنارے پر ایک پارک بنایا گیا ہے، جہاں پر امام خمینی(رح) اور رہبر معظم خامنہ ای کی تصاویر آویزاں کی گئی ہیں جبکہ بیت المقدس کے ماڈل پر مسجد تعمیر کی گئی ہے، جس کی چھت پر ایرانی پرچم لہرا رہا ہے اور سامنے ہی اسرائیلی افواج بیٹھی ہیں، جو دن رات ایرانی پرچم کو دیکھ کر نفسیاتی طور پر شکست کا شکار ہوچکی ہیں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایران مقبوضہ فلسطین یعنی اسرائیل کی جعلی سرحد پر پہنچ چکا ہے۔ اگر اسرائیل نے ایران کے خلاف کسی بھی قسم کی غلطی کرنے کی کوشش کی تو ایران پہلے ہی اسرائیل کی جعلی سرحد پر موجود ہے، اسرائیل کو سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے۔



اسلام ٹائمز: مسئلہ فلسطین، فلسطینیوں کی مظلومیت، ناجائز اسرائیلی حکومت کے ظلم و بربریت کے حوالے سے پاکستانی حکومت اور دینی و مذہبی جماعتوں کو جو مثبت کردار ادا کرنا چاہیئے تھا، نظر نہیں آتا، اگر یہ سچ ہے تو اسکی کیا وجوہات ہیں۔؟ 
صابر ابو مریم: پاکستان کے قیام سے اور قیام پاکستان سے قبل بھی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح(رہ) نے ہمیشہ فلسطینی کاز کی حمایت کی اور اپنی تقاریر میں صیہونی غاصبانہ تسلط سے آگاہ کیا، یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک پاکستان میں آنے والی کسی بھی حکومت نے غاصب اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے، صرف یہی نہیں کہ تسلیم نہیں کیا بلکہ فلسطینی کاز کی جس قدر ممکن ہے، سیاسی و اخلاقی حمایت جاری رکھی ہے۔ اس باوجود میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی سیاسی و مذہبی جماعتیں اور ان کی قیادتیں ہمیشہ بین الاقوامی سازشوں کے چنگل میں پھنسی رہی ہیں اور یہ خود ایک صیہونی سازشوں کا حصہ ہے، تاکہ پاکستان کے سیاسی و مذہبی حلقوں کو اپنے اندرونی مسائل میں اس قدر الجھایا جائے کہ وہ مسئلہ فلسطین تو کیا کسی اور مسئلے کی طرف بھی توجہ کرنے کے قابل نہ رہیں، بس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں امریکہ اور اسرائیل کی ان تمام سازشوں کو بے نقاب کرتے ہوئے باہم متحد ہو کر کام کرنا ہوگا اور فلسطین جو مسلم امہ کا مسئلہ ہے اور پاکستان کے لئے اہمیت کا حامل بھی ہے، اس کی مدد کرنا ہمیں اپنا دینی، اخلاقی اور سیاسی فریضہ سمجھنا ہوگا، ان تمام حالات کے باوجود بھی میں یہ سمجھتا ہوں کہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین سے جب بھی مسئلہ فلسطین کی حمایت کے لئے بات کی جائے تو وہ نکل کر میدان میں آتے ہیں، جس پر ان کی خدمات کو لائق تحسین قرار دیتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ سیاسی و مذہبی قیادتیں مزید دقت کے ساتھ فلسطین کاز کی حمایت میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

اسلام ٹائمز: فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کا بھی ملک گیر وہ کردار نظر نہیں آتا جو کہ پاکستان میں آزادی فلسطین کی نمائندہ تنظیم کے طور پر ہونا چاہیئے تھا، آپ اسکی کیا وجہ سمجھتے ہیں۔؟ 
صابر ابو مریم: فلسطین فاﺅنڈیشن پاکستان کے بارے میں، میں عرض کرچکا ہوں کہ اس کی تاسیس کو آٹھ برس کا عرصہ بیت چکا ہے، اس کم مدت میں فلسطین فاﺅنڈیشن پاکستان نے ملک میں اور ملک سے باہر بین الاقوامی پروگراموں میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے، جس کی بناء پر نومبر 2014ء میں دنیا بھر کی ایک سو سے زائد فلسطینی تحریکوں بشمول حماس، جہاد اسلامی، حزب اللہ، پاپولر فرنٹ کے ایک اجلاس میں فلسطین فاﺅنڈیشن پاکستان کی سرگرمیوں کو سراہا گیا اور اعزاز سے نوازا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود میں آپ کی بات سے بھی اتفاق کرتا ہوں کہ کام کی رفتار کچھ کم ہے، جس کی وجہ مختلف نوعیت کے مسائل ہیں، ہمارے ملک کی سیاسی فضاء بھی بعض اوقات آپ کی رفتار پر اثر انداز ہوتی ہے، اسی طرح وسائل کا بھرپور انداز میں نہ ہونا سب سے بڑا مسئلہ ہے، اور جہاں تک فلسطین فاﺅنڈیشن پاکستان کے نمائدہ جماعت ہونے کا سوال ہے، تو میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ پاکستان کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں بشمول پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نواز، پاکستان مسلم لیگ (ق)، پاکستان عوامی تحریک، سنی تحریک، جمعیت علمائے پاکستان، جماعت اسلامی پاکستان، مجلس وحدت مسلمین پاکستان، عوامی مسلم لیگ پاکستان، جعفریہ الائنس پاکستان، عوامی نیشنل پارٹی سمیت دیگر تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے اعلٰی عہدیداران شامل ہیں اور گذشتہ آٹھ برس سے سرزمین پاکستان پر مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھنے اور اس کے لئے سیاسی و اخلاقی حمایت کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ ہمارے ساتھ طلباء تنظیمیں بھی ہیں، ہم نے انسانی حقوق کے اداروں کے ساتھ روابط قائم کئے ہیں، اسی طرح مزید جہاں تک رسائی ممکن ہو رہا ہے، اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، ایک ویب سائٹ انگریزی اور اردو زبان میں فلسطین کے حوالے سے بنائی گئی ہے: www.plfpakistan.com  جس پر روزانہ فلسطین سے متعلق اپ ڈیٹس فراہم کی جاتی ہیں، ایک عدد ماہانہ مجلہ Monthly Voice of Palestine بھی شائع کیا جاتا ہے، جسے پاکستان کے نامور سیاستدانوں، شخصیات، کالم نگاروں، لائبریریوں، صحافیوں، ٹی وی چینلز کے دفاتر، یونیورسٹیوں سمیت تمام اہم مقامات پر ارسال کیا جاتا ہے۔




اسلام ٹائمز اردو سے اقتباس