حضرت رسولخدا (ص) اور حضرت علی مرتضی (ع) کے صحابی جناب عمار یاسر کی 9/ صفر سن 37 ھ ق کو شہادت ہوئی ہے۔ مسعودی اور تذکرہ سبط جوزی کی تاریخ کے مطابق صفین میں اسی تاریخ کو آپ کی شہادت ہوئی ہے۔
واقعہ یوں ہے کہ جب 9/ صفر اور جمعرات کا دن آیا تو امیرالمومنین (ع) صفین میں مقابلہ کے لئے باہر نکلے اور جنگ سخت ہوئی اور اس دن عمار یاسر نے مرد و مردانگی کے جوہر دکھائے اور حملہ کرکے نمایاں جنگ کی اور اپنی جگہ پر واپس آگئے اور پانی مانگا تو بنی شیبہ کی ایک خاتون نے دودھ کا ایک پیالہ پیش کیا۔ جب عمار نے دودھ کا پیالہ دیکھا تو کہا: اللہ اکبر! آج میری شہادت کا دن ہے اور اپنے دوستوں سے اس دنیا میں جا کر ملاقات کروں۔ پھر آپ نے رجز پڑھی اور جنگ کی یہاں تک ابوالمعاویہ عاملی اور ابو حرا سکسکی نے دن کے آخر میں آپ کو شہید کردیا۔ اس وقت آپ کی عمر 93/ سال کی تھی۔ عمار یاسر کی شہادت کا حضرت علی (ع) پر گہرا اثر ہوا اور آپ نے عمار کے جنازہ پر نماز پڑھی اور صفین میں دفن کردیا۔ (خدا ان پر رحمت نازل کرے)
کتاب "مجالس امیرالمومنین" میں مذکور ہے کہ جب مجاہد راہ خدا، سرباز امام وقت امیرالمومنین عمار یاسر شہید ہوگئے تو حضرت علی (ع) ان کے سرہانے آئے اور ان کا سر اپنے زانو پر رکھا "انا للہ" کہا اور فرمایا: جو شخص جو بھی عمار کی شہادت سے غمگین اور ملول نہ ہو اسے مسلمان ہونا نصیب نہ ہو۔ خدا عمار پر رحمت نازل کرے اس وقت جب ان سے نیک و بد کا سوال ہو۔ میں نے جب بھی 3/ آدمیوں کو رسولخدا (ص) کی خدمت میں دیکھا تو وہاں چوتھے عمار ہوتے تھے اور اگر چار آدمیوں کو دیکھا تو پانچویں عمار ہوتے تھے۔ عمار پر ایک بار جنت واجب نہیں ہوئی ہے بلکہ عمار بار بار جنت کے مستحق ہوئے ہیں۔ جنات عدن انھیں مبارک اور ان کے لئے آمادہ ہو کہ دشمنوں نے انھیں شہید کر ڈالا، حق ان کے ساتھ تھا وہ حق کے یار و یاور تھے۔ اس کے بعد حضرت علی (ع) نے فرمایا: عمار کا قاتل، انھیں سب و شتم کرنے والا اور ان کے اسلحے کو لے کر بھاگ جانے والا آتش دوزخ میں معذب ہوگا۔ اس کے بعد آپ نے اپنے قدم مبارک کو آگے بڑھایا۔ عمار کی نماز جنازہ پڑھائی اور اپنے دست مبارک سے انھیں سپرد لحد کیا۔
محدث نوری (نوراللہ مرقدہ) "نفس الرحمان" میں فرماتے ہیں: نہروان کا واقعہ کا اسی دن سن 38 ھ ق کو ہوا اور 9/ افراد کے علاوہ نہروان کے سارے خوارج مارے گئے تھے اور مقتولین میں احمد بن حنبل کا جد "ذوالثدیہ" بھی تھا۔ امیرالمومنین (ع) کے لشکر سے 10/ کے علاوہ کوئی اور مارا نہیں گیا۔ اس کی حضرت نے پہلے ہی خبر دی تھی۔
بہر کیف الہی ، انسانی ، اسلامی اور ربانی شخصیات کی قدردانی کرنا ہمارا فریضہ ہے۔ ان ہستیوں کی عظمت کا ہم اور آپ اندازہ نہیں لگا سکتے۔ ان کی عظمت و رفعت کو جاننے کے لئے خود کو الہی اور انسانی بنانا ہوگا۔ انہوں نے ایمان لانے اور اسلام قبول کرنے کے بعد ایک آن کے لئے بھی اسلام کے اصول و قوانین کی مخالفت نہیں کی بلکہ حد درجہ اس کی پابندی کی، اس کے اصول و ضوابط کی پاسداری کی اور اللہ و رسول (ص) کی راہ میں اپنی جان کی قربانی دے کر ثابت کردیا کہ خدا کے بندے اور رسول (ص) اور حضرت علی (ع) کے چاہنے والے کیسے ہوتے ہیں۔