آسماں ولایت اور امامت مہر تاباں، ہدایت و صداقت کے خورشید درخشاں، رسولخدا (ص) کے جانشیں اور شیعوں کے آٹھویں امام حضرت امام علی بن موسی الرضا (ع) 11/ ذی القعدہ سن 148 ھ ق کو شہر مدینہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی حضرت امام موسی کاظم (ع) نے آپ (ع) کا نام "علی" رکھا۔
آپ (ع) کی کنیت "ابوالحسن" ہے اور آپ کے القاب صابر، فاضل، رضی، وفی، صدیق، زکی، سراج اللہ، نور الھدی اور رضا ہیں لیکن ان تمام القاب میں مشہورترین لقب "رضا" ہے۔
انہیں رضا اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ امامت کے لئے آسماں میں خدا کے محبوب اور پسندیدہ تھے اور زمین میں رسولخدا (ص) اور ائمہ (ع) کے محبوب اور پسندیدہ تھے۔ ایک دوسری وجہ بھی بیان کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ (ع) رضائے الہی پر راضی تھے اور یہ خصلت جو مقام صبر سے بالاتر مقام کی حامل ہے، مکمل طور پر آپ کے اندر موجود تھی۔
علمی اور ثقافتی خدمات
امام رضا (ع) نے اسلامی معارف اور شاگردوں کی تربیت کی توسیع میں خاص کردار ادا کیا ہے۔ آپ اپنے والد کے کاموں کو آگے بڑھانے اور انجام دینے میں خاندان رسالت کی علمی اور ثقافتی ترقی کے لئے ایک محکم ستون تھے۔ حضرت امام موسی کاظم (ع) نے اپنی حیات میں بہت سارے امور اپنے نمائندہ اور وکیل کے عنوان سے آپ کے حوالہ کردیئے تھے۔ امام موسی بن جعفر (ع) کی امام رضا (ع) کی جانب توجہ کی نوعیت دیکھ کر شیعوں نے سمجھ لیا کہ آپ ہی امام کاظم کے تنہا امین معاون اور باپ کے مورد اعتماد شخص ہیں اور آپ نے باپ کے ذریعہ سپرد شدہ امور کو بخوبی انجام دیا۔
والد کے قید میں ہونے پر تمام امور کی سرپرستی
امام موسی کاظم (ع) کی عباسی خلفاء کے قید خانہ کی تمام مدت میں امام رضا (ع) نے تمام امور کی رسیدگی کی اگر چہ ابھی مقام امامت پر فائز نہیں ہوئے تھے۔ لیکن آپ نے اپنے والد کے تمام امور آپ کے نمائندہ کی حیثیت سے انجام دیئے اور شیعہ فقہ و ثقافت کی پاسداری اور شاگردوں کی حفاظت اور شیعوں کی ہدایت میں بہت اہم کردار ادا کیا اور ایسی صورتحال میں امام رضا (ع) شیعوں کے ثقافتی، اجتماعی اور مذہبی امور کی رسیدگی کررہے تھے۔ شیعوں کے فکری اور اعتقادی سوالوں کے جوابات دیتے اور اپنے والد کی عدم موجودگی کے خلا کو پر کرتے تھے اور رجوع کرنے والوں کی تسلی اور تشفی کا سامان تھے، اس کے باوجود آپ نے اپنے ولد کے کاموں اور اغراض و مقاصد کو عملی کرتے ہوئے وقت کی طاغوت اور ظالموں کا راز فاش کیا۔
امام موسی کاظم (ع) کی شہادت کے بعد سن 183 ھ ق میں امام رضا (ع) کی امامت کا آغاز ہوگیا۔ آپ (ع) کی عمر 35/ سال تھی کہ امور امامت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی اور اسلامی معاشرہ کی فکری اور اعتقادی ہدایت و رہنمائی کی ذمہ داری سنبھالی۔ امام موسی کاظم (ع) مختلف مواقع پر امام رضا (ع) کو اپنے وصی اور اپنے بعد کے امام کے عنوان سے متعارف کرایا اور اپنے شاگردوں اور اصحاب سے اس اہم امر میں گواہی لی۔ آپ کی مدت امامت 20/ سال مدینہ میں اور آخر کے 3/ سال خراساں میں گذرے ہیں۔
امام رضا کی دردناک شہادت
مامون نے اپنی حکومت کو محفوظ رکھنے کے لئے امام رضا (ع) کو مدینہ سے مرو بلادیا اور اپنی حکومت اور اپنے اقتدار کی بقا کے لئے ہزاروں حیلہ و بہانہ کا سہارا لیا اور جب اپنے مقاصد میں ناکام ہوا اور دیکھا۔ امام رضا (ع) کی رفتار و گفتار سے اس کی حکومت کمزور اور متزلزل ہورہی ہے اور دوسری طرف امام رضا (ع) کی ولیعہدی سے عباسیوں کی دھمکیوں کا سامنا ہے اور اسے تنبیہ کررہے ہیں۔ تو اس نے آپ کو مارنے کا فیصلہ کرلیا لیکن اس بات پر مکمل دھیان تھا کہ یہ کام بہت پوشیدہ طور پر انجام دیا جائے تا کہ حکومت کے لئے چیلنج نہ بن سکے لہذا اس نے حضرت کو زہر دے دیا اور اس طرح سے اپنے مقصد میں کامیاب ہوا۔ جب آپ (ع) کے چاہنے والوں اور عقیدتمندوں نے آپ کی شہادت کی خبر سنی تو جمع ہوگئے اور کہنے لگے کہ آپ کو مامون نے دھوکہ سے شہید کرایا ہے۔ مامون نے ایک شخص کو لوگوں کے پاس بھیجا اور اس سے کہلوایا کہ تشییع جنازہ دوسرے دن ہوگی۔ مردم نے فتنہ بپا ہونے کے خوف سے لوگوں کو اس طرح سے جدا کیا اور حکم دیا کہ آپ (ع) کا جنازہ رات و رات غسل و کفن کرکے سپرد لحد کردیا جائے۔