محرم سن 1963ء میں آقا فلسفی کی مشہور تقریریں
مرحوم فلسفی نے ماہ محرم سن 1963ء کو جب مجلس پڑھنے کے لئے منبر پر گئے تو آقا میلانی اور آقا خمینی کے خطوط پڑھے چونکہ آپ کو خطرہ محسوس ہوا کیونکہ ساواکی لوگوں کا مدرسہ فیضیہ پر حملہ کا سابقہ دیکھ چکے تھے۔ آپ نے حکم دیا تھا کہ سارے سامعین کھڑے ہوجائیں اور سارے دروازوں کو بند کردیا جائے اور مجمع مکمل آمادہ ہو کر کھڑا ہوگیا اگر مجمع میں سے کوئی سامعین پر حملہ کرنا چاہے تو لوگ اپنے دفاع کے لئے آمادہ رہیں۔ آخر کار انہوں نے آیت اللہ العظمی خمینی کا خط پڑھا اور اس کے بعد آیت اللہ العظمی میلانی کا اعلانیہ پڑھا۔ مرحوم آیت اللہ میلانی کے اعلانیہ میں یہ جملہ تھا: جو شخص ماہ محرم میں امام حسین (ع) کی فرش عزا پر بیٹھے اور حکومت کے مظالم اور جرائم کے بارے میں کچھ نہ کہے تو اس کی مثال یہی ہے کہ دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھایا اور نمکدان توڑ دیا ہو۔ سب کی ذمہ داری ہے کہ اس سلسلہ میں اقدام کرے اور بولے۔ یہ تحریک عشرہ محرم میں ایک عمومی انقلاب تھی۔
عاشورا سے پہلے مرحوم فلسفی بازار میں ترکوں کے درمیان مجلس پڑھتے تھے اور پہلی شب سے آپ کا موضوع حریت اور آزادی تھا اور آپ نے آزادی کی بحث شب عاشورا تک جاری رکھی اور روزمرہ کے مسائل اور انقلاب کے مسائل تک گفتگو کی۔ میں بھی ان ایام میں تہران میں مجلس پڑھ رہا تھا لہذا آقا فلسفی کی شب عاشور کی مجلس میں شریک نہ ہوسکا لیکن جن احباب نے اس مجلس میں شرکت کی تھی وہ نقل کررہی تھے کہ اس رات مدرسہ، مسجد، بازار اور اس کے اطراف کی ہر جگہ لوگوں سے بھری ہوئی تھی۔ اس رات مرحوم فلسفی نے بہت ہی عمدہ مجلس پڑھی تھی جو آپ کی یادوں کے نام سے مرسوم کتاب خاطرات میں چھپی ہے۔ انہوں نے علم حکومت کے 10/ مادوں کی وضاحت کرتے ہوئے لوگوں کے درمیان اعلان کیا کہ ان مادوں میں سے جس کو بھی پڑھوں اگر آپ لوگوں کو قبول ہو تو کہئیے صحیح ہے۔ اس پر وہاں موجود بھاری مجمع نے کہا "صحیح ہے"۔ اس رات اس موضوع کے بارے میں حکومت سے وضاحت طلب کی تھی۔