خال لب کا ترے اے دوست گرفتار ہوں  میں
چشم بیمار کو دیکھا ہے تو بیمار ہوں  میں
کوس اناالحق کا بجایا ہے کہ مثل منصور
اتنا بیخود ہوں ، خریدار سردار ہوں میں
غم دلدار نے بھر دی وہ مری روح میں  آگ
جاں  سے بیزار ہوں  اور شہرہ بازار ہوں  میں
وارہے میرے لیے میکدہ کادر شب و روز
مسجد و مدرسہ دونوں  ہی سے بیزار ہوں  میں
جامہ زہد و ریا پھینک دیا اور پہنا
خرقہ پیر خرابات تو ہشیار ہوں  میں
واعظ شہر کی باتوں  نے ستایا جو مجھے
رند میخوار کا اب ہمدم و ہمکار ہوں  میں
یاد بتخانہ کروں  اب، کہ بت میکدہ نے
خواب سے مجھ کو جگایا ہے تو بیدار ہوں  میں