آگے بڑھا نفس و آفاق سے اور جاں ہوجا
بلکہ جاں سے بھی گزر، در خور جاناں ہوجا
مفت ہاتھ آتا نہیں طرہ گیسو اس کا
سر و پا پیش کر اس راہ میں ، چوگاں ہو جا
اس کے ابرو کی جو محراب میں پڑھنا ہے نماز
صدیاں در کار ہیں ، اس راہ میں گرداں ہوجا
خال لب کے لیے پیمانہ غم کر لبریز
تیز کر درد کو، بیگانہ درماں ہوجا
چشم ساقی کی ہوس ہے تو بہک جا تو بھی
ہاتھ لہرا کے شریک صف مستاں ہو جا
بے فنا ملتی نہیں ہے کہ رہ عشق ہے یہ
شوق دلدار میں پروانہ ہو، بریاں ہو جا