امام خمینیؒ نے عورت کو انتہا پسندی اور افراط و تفریط کی قید سے نجات دی: ڈاکٹرعلی کُمساری

پہلی بین الاقوامی کانفرنس امام خمینیؒ کی فکر کی روشنی میں خواتین کے کردار اور مقام میں تبدیلی سے خطاب کرتے ہوئے مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینیؒ کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین ڈ

ID: 84017 | Date: 2025/09/05

امام خمینیؒ نے عورت کو انتہا پسندی اور افراط و تفریط کی قید سے نجات دی: ڈاکٹرعلی کُمساری


پہلی بین الاقوامی کانفرنس امام خمینیؒ کی فکر کی روشنی میں خواتین کے کردار اور منزلت میں تبدیلی سے خطاب کرتے ہوئے مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینیؒ کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین ڈاکٹرعلی کُمساری نے کہا ہے کہ امام خمینیؒ کی فکری ہندسیہ میں کوئی نقص نہیں ہے؛ یہ فکر مکمل طور پر اعلیٰ، مترقی، نجات بخش اور شفا بخش ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا عملی میدان میں بھی یہ فکر نافذ ہوئی ہے؟ اگر ہوئی ہے تو کس حد تک؟ تاکہ ہم نوجوان نسل کو بتا سکیں کہ بیٹیو! تم امام کی فکر کی روشنی میں اس قدر ترقی کر سکی ہو؛ اور عورت کو یہ بتا سکیں کہ تم امام کے افکار کے عملی نفاذ کے نتیجے میں یہاں سے یہاں تک پہنچی ہو، اور یہ رہے اس کے شواہد، مثالیں اور اعداد و شمار۔
کُمساری نے کہا کہ امام خمینیؒ نے عورت کو افراط و تفریط کی گرفت سے آزاد کیا۔ انہوں نے کہا کہ امام کی فکر میں کوئی خلل نہیں، یہ سراسر کمال اور رشد کی فکر ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اس کو عملی جامہ پہنایا ہے؟
انہوں نے پہلی بین الاقوامی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں کہا کہ اس کانفرنس کا بنیادی خیال اور تجویز ڈاکٹر فاطمہ طباطبائی کا ہے۔ خواتین امور کے دفتر کی عمر تین سال سے بھی کم ہے، مگر اتنے قلیل عرصے میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کر رہی ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ جہاں بھی خواتین اور نوجوانوں پر اعتماد کیا جائے، وہاں تبدیلی لائی جا سکتی ہے، جیسا کہ امام خمینیؒ کی سیرت میں بھی یہ حقیقت نمایاں ہے۔
کُمساری نے کہا کہ امام کی باتیں خواتین کے بارے میں ایک انقلابی اور جدید سوچ تھیں۔ اُس دور میں جب خواتین، خصوصاً دیندار خواتین کو معاشرتی ترقی سے محروم رکھا جاتا تھا یا سماجی سرگرم خواتین کو مذہبی و عائلی کردار سے الگ سمجھا جاتا تھا، امام نے عورت کو اس انحطاطی دوگانگی سے آزاد کرایا۔ رہبر معظم انقلاب کے بقول امام نے ایک تیسری راہ پیش کی، جس نے عورت کو افراط و تفریط دونوں سے نجات دی۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ امام خمینیؒ نے یہاں تک مبالغہ سے اجتناب کیا کہ ایک بار تحریر میں میں پوری قوت سے رزمندگان کے لیے دعا کرتا ہوں لکھا تھا، پھر خود ہی پوری قوت کو کاٹ کر زیادہ سے زیادہ قوت لکھ دیا۔ ایسے امام نے کہا کہ خواتین سعادت کی تمام بنیاد ہیں۔ یہ بات کسی عام عالم کی نہیں، بلکہ ایک مرجع تقلید اور عارف فقیہ کی ہے، جس نے عورت کو قرآن کے برابر قرار دیا اور فرمایا: عورت انسان ساز ہے، جیسے قرآن انسان ساز ہے۔
کُمساری نے کہا کہ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا امام کی یہ فکر عملی سطح پر بھی نافذ ہوئی؟ اگر اس کا جواب مل جائے تو ہماری آج کی نسل اور نوجوان لڑکیوں کے کئی سوال حل ہو جائیں گے۔ امام کی فکر نظری سطح پر بے نقص ہے، لیکن ہمیں دیکھنا ہوگا کہ عملی میدان میں ہم نے کتنا کامیاب نفاذ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جیسا کہ آیت اللہ سید حسن خمینی (یادگار امام) فرماتے ہیں: امام صرف کل کا نہیں بلکہ آج اور کل کا بھی امام ہے۔ اگر ہم اس فکر کو آج کے مسائل کے علاج کے طور پر پیش کر سکیں تو یہ نسل بھی امام کی پیروی کرے گی۔
کُمساری نے کہا کہ اگر ہم یہ دکھا سکیں کہ اسلامی جمہوریہ نے کس حد تک عورت کو خیر و برکت اور انسان سازی کے سرچشمے کے طور پر عملی مقام دیا ہے، تو پھر معاشرتی مسائل اور وقتی جذباتی بحران ہمیں پریشان نہیں کریں گے۔
انہوں نے دبیر کانفرنس سے کہا: ہمیں رسمی اور تشریفاتی اجلاسوں کی ضرورت نہیں۔ بیت المال اس سے زیادہ قیمتی ہے۔ ہمیں ایک سائنسی، علمی اور عملی کانفرنس چاہیے، جس کے نتائج کو نوجوان نسل کے سامنے رکھا جا سکے، تاکہ ان کی امام کے بارے میں شناخت صحیح اور عمیق ہو۔
کُمساری نے کہا کہ اگر ہم امام کی فکر کے محاسن کو درست انداز میں پیش کر سکیں تو نوجوان نسل خود بخود اس کے ساتھ جڑ جائے گی۔ جیسے امام رضاؑ نے فرمایا: اگر لوگ ہمارے کلام کی خوبصورتی کو سمجھ لیں تو وہ ہماری پیروی کریں گے۔ بالکل اسی طرح اگر آج کی نسل امام خمینیؒ کی فکر کے حسن اور ان کے پیش کردہ حلوں کو سمجھے تو وہ بھی امام کی پیروی کرے گی۔ اور تب ہم کہہ سکیں گے کہ امام نہ صرف کل کے امام تھے بلکہ آج کے بھی ہیں اور ان شاء اللہ کل کے بھی ہوں گے۔