امام کی فکر اسلامی جمہوریہ کے لیے مشروعیت پیدا کرتی ہے:ڈاکٹرعلی کمساری

حجت الاسلام والمسلمین علی کمساری کے ساتھ حضور پروگرام میں مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینیؒ کے قیام کی سالگرہ ہے۔ اس مناسبت سے ہم امام خمینیؒ کے آثار کے نشر و اشاعت کے رئیس کے مہمان ہیں۔ وہ شخصیت جو انقلاب کی دوسری نسل سے تعلق رکھتی ہے

ID: 84063 | Date: 2025/09/07

امام کی فکر اسلامی جمہوریہ کے لیے مشروعیت پیدا کرتی ہے:ڈاکٹرعلی کمساری 


 جماران خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق 17 ستمبر  کو۲۰۲۵کو موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین ڈاکٹرعلی کمساری حضور پروگرام میں مہمان کی کے طورپر شرکت کی جس میں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ امام ہماری عدل پسندی، ظلم ستیزی اور آرمان پسندی کے مظہر تھے اور کہا کہ ہم امام کے دفاع میں لکنت کا شکار نہیں ہیں۔ ہم گریبان پکڑنے والے بھی نہیں ہیں جیسے بعض لوگ کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ امام کے دفاع میں ہمارے پاس کوئی تعارف یا مصلحت نہیں۔ اس مجموعے کی آبرو کو محفوظ رکھنا جس کی بنیاد خود امام (رہ) نے رکھی ہے۔


حجت الاسلام والمسلمین علی کمساری کے ساتھ حضور پروگرام میں مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینیؒ کے قیام کی سالگرہ ہے۔ اس مناسبت سے ہم امام خمینیؒ کے آثار کے نشر و اشاعت کے رئیس کے مہمان ہیں۔ وہ شخصیت جو انقلاب کی دوسری نسل سے تعلق رکھتی ہے، (1972ء) میں کرمان میں پیدا ہوئیں اور مختلف ثقافتی تجربات کے ساتھ آج ایک ایسی ذمہ داری نبھا رہے ہیں جس کا ردعمل امام اور امام کے قیمتی افکار کی مزید شناخت ہونی چاہیے۔


ڈاکٹر علی کمساری نے امام خمینی(رہ) سے اپنی پہلی ملاقات کے بارے میں کہا کہ میری پہلی ملاقات امامؒ سے سن 57 میں ہوئی جب وہ قم تشریف لائے۔ والد، والدہ اور دو بھائیوں کے ساتھ قم گئے۔ اگلے دن والد نے کہا کہ امام کے دفتر  چلتے ہیں۔ وہاں آزادی زیادہ تھی اور بعد کی طرح سخت پابندیاں نہیں تھیں۔ میں نے وہیں حماسی اشعار کا دکلمه سنایا۔ امام خمینی (رہ) کے پوتے سید حسن خمینی نے تعریف کی اور کہا کہ کل آپ کو امام سے ملاقات کراؤں گا۔ دوسرے دن اپنے وعدے کے مطابق ہمیں امام کے گھر لے گئے۔ اس وقت کچھ کمانڈرانِ نیروی هوایی بھی موجود تھے۔


کمساری نے مزید کہا:امام کمرے میں آئے، والد اور بھائیوں نے دست‌بوسی کی، مگر میں مبهوت رہ گیا۔ ایک کیسٹ ٹیپ بھی ساتھ لایا تھا جس میں میری ایک نظم ریکارڈ تھی، وہ امام کو ہدیہ کرنا چاہتا تھا۔ امام کے جانے کے وقت میں دوڑا، ان کے قدموں پر گر گیا اور پاؤں کو بوسہ دیا۔ عبای مبارک ان کے دوش سے نیچے گر گئی جسے والد نے دوبارہ اوڑھایا۔ امام نے شفقت سے میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔ وہ لمحہ آج بھی میری روح میں زندہ ہے۔


ان کا کہنا تھا کہ امام نوجوانوں کے لیے مظهر عدل‌خواهی، ظلم‌ستیزی اور آرمان‌خواهی تھے۔ یہی خصوصیات ہیں جو نسلِ جوان کو متاثر کرتی ہیں۔ شہید فهمیده اور ہزاروں نوجوان اپنی جان امام کے عشق میں قربان کر گئے۔ یہ صرف ایک روحانی یا فرا زمینی تعلق نہ تھا بلکہ امامؒ ایک ایسے رہبر تھے جنہوں نے ملت کو عزت، آزادی اور استقلال کی طرف بلایا۔


انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ ہم نے امام کو نسلِ نو کے سامنے امام امروزاور امام فردا کے طور پر پیش نہیں کیا۔ رهبری نے فرمایا ہے کہ امام کا انگشتِ اشاره آج بھی رہنما ہے۔ آج کی نسل تعصب سے نہیں، دلیل و اقناع سے قائل ہوتی ہے۔ مگر ہم نے سمجھا کہ بخشنامے اور زبردستی سے تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ حالانکہ ایک اتفاقِ ثقافتی ایسے نہیں بنتا۔


علی کمساری نے موجودہ نسل کی قربانیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا آج کے جوان، چاہے مدافعین حرم ہوں یا دانشمند، اسی نسلِ بعد از امام سے ہیں۔ وہ میدانِ جنگ میں جان دیتے ہیں یا علم و دانش میں کشور کو پیشرفت دیتے ہیں۔ مگر ہماری زبان امام کے معرفی میں الکن ہے۔ ہمیں چاہیے کہ امام کو صرف تاریخی شخصیت نہ بلکہ آج اور کل کے راہنما کے طور پر نسل نو کے سامنے پیش کریں


انہوں نے کہا کہ امام خمینیؒ کی فکر آج بھی دنیا میں زندہ اور اثرگذار ہے۔ انہوں نے کہا امام نے ہمیں یہ جرأت دی کہ امریکہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا آج بھی یہ فکر فلسطین اور طوفان الاقصیٰ میں جھلکتی ہے۔


ان کے مطابق دشمن سب سے زیادہ تخریب امام خمینیؒ  کی شخصیت کرتا ہے ہمارے مرکزِ رصد کے مطابق سب سے زیادہ شبہات اور حملے امام پر ہیں۔ حالانکہ امام کو دنیا سے گئے 36 سال ہوچکے، مگر آج بھی ان کے خلاف پروپیگنڈہ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔


انہوں نے کہا کہ امام کی فکر ہی جمہوری اسلامی ایران کی بنیاد ہے۔ جیسے قانونِ اساسی نظام کو مشروعیت دیتا ہے، ویسے ہی امام کی فکر اس نظام کی روح ہے۔" ان کے بقول، اگر امام کے افکار پر عمل ہو تو آج کے سماجی اور ثقافتی مسائل کا حل مل سکتا ہے۔


انہوں نے بتایا کہ امام نے سب سے زیادہ اعتماد نوجوانوں پر کیا۔ شہید رجائی کی کابینہ کا اوسط عمر صرف 35 سال تھا۔ قاسم سلیمانی جب کمانڈر بنے تو 23 سال کے تھے۔


اسی طرح خواتین کے بارے میں انہوں نے کہا: امام نے عورت کو صرف گھر تک محدود یا صرف دنیاوی کامیابیوں تک مقید نہیں رکھا بلکہ دونوں کو ساتھ لے کر چلنے کا راستہ دیا۔ آج لڑکیاں حجاب کے ساتھ کنکور میں اول بھی آ رہی ہیں اور پیشہ ورانہ کامیابیاں بھی حاصل کر رہی ہیں۔


انہوں نے شکوہ کیا کہ ملک کے ثقافتی ادارے امام پر زیادہ کام نہیں کر رہے۔ وزارت ثقافتی امور، وزارت تعلیم، اور تبلیغات اسلامی سے سوال ہے کہ وہ امام پر کتنا کام کر رہے ہیں؟ افسوس یہ ہے کہ زیادہ نہیں۔


انہوں نے بتایا کہ امام خمینیؒ کے اسناد اور دستاویزات کی اشاعت ضابطے کے مطابق ہوتی ہے۔ کچھ دستاویزات وقت کے ساتھ جاری ہو چکے ہیں، جیسے امام کا پہلا پارلیمانی ووٹ۔ کچھ دستاویزات مستقبل میں، اور بعض کبھی بھی شائع نہیں ہوں گے۔


انہوں نے کہا کہ مؤسسه کا آدھا بجٹ عملے پر خرچ ہوتا ہے، اور باقی تحقیق، مستندات، کتب اور فلم سازی پر لگایا جاتا ہے۔ اب تک 1400 سے زائد کتابیں شائع کی گئی ہیں، اور نئے مستندات پر بھی کام جاری ہے۔


انہوں نے واضح کیا کہ دنیا کے بڑے رہنماؤں جیسے گاندھی، نلسن منڈیلا، آتاترک، جمی کارٹر اور لنکن کے لیے بھی بڑے سرکاری ادارے قائم ہیں اور وہ سب حکومتی بجٹ سے چلتے ہیں۔ تو پھر امام خمینیؒ جیسے رہنما کے لیے ایران میں ایسا ادارہ ہونا عین فطری ہے۔


حسینیہ جماران میں ایک خصوصی گفتگو کے دوران حجت‌الاسلام والمسلمین دکتر علی کمساری، رئیس مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینیؒ نے کہا کہ امام خمینیؒ کی فکر اور افکار نظامِ جمہوری اسلامی کی اساس اور روح ہیں اور ان ہی افکار پر عمل ہمیں مشکلات اور بحرانوں سے نکال سکتا ہے۔


کمساری نے بتایا کہ مؤسسه نے امام خمینیؒ کے تمام آثار، دستاویزات، تصاویر اور بیانات کو محفوظ کر کے شائع کیا ہے۔ آج امام کے کوئی بھی دستاویزایسی نہیں جو ہمارے پاس نہ ہو۔ حتیٰ کہ نئی دستاویزات بھی نوبتِ اشاعت میں ہیں۔ انہوں نے محققین، دانشوروں اور طلبہ کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے امام پر کتب، مقالات اور تحقیقی کام انجام دیے۔


انہوں نے کہا کہ امام خمینیؒ کے افکار کے سب سے بڑے مروج اور پاسبان خود مقام معظم رهبری ہیں۔ رهبری ہر موقع پر امام کا ذکر کرتے ہیں، حتیٰ کہ ملاقاتوں اور نجی نشستوں میں بھی۔ کرونا کے دور میں بھی انہوں نے حکم دیا کہ امام کی برسی ہرگز تعطیل نہ ہو۔


کمساری نے بتایا کہ امام خمینی کے پوتے الحاج سید حسن خمینی کئی مواقع پر بغیر پروٹوکل اور حتیٰ معمولی لباس میں عوامی اجتماعات اور تشییع شہداء میں شریک ہوئے تاکہ براہِ راست عوام کے درمیان رہ سکیں۔


گفتگو کے دوران کمساری نے اپنی بچپن کی یادیں بھی بیان کیں اور بتایا کہ پہلی بار 10 سال کی عمر میں محاذ پر شعر خوانی کے موقع پر شہید حاج قاسم سلیمانیؒ سے ملاقات ہوئی۔ بعد میں بھی ان سے رابط رہا اور انہوں نے انہیں آیت‌الله کمساری کا لقب دیا۔ انہوں نے کہا شہید سلیمانی نہ صرف کرمان بلکہ پورے ایران کے عوام کے محبوب تھے اور ہر سیاسی خط سے بالاتر تھے۔


کمساری نے کہا کہ امام خمینیؒ اور رهبر معظم انقلاب دونوں ہمیشہ اختلافِ نظر کو نعمت سمجھتے ہیں لیکن تفرقہ و دشمنی کو خطرناک قرار دیتے ہیں۔ آج ملک میں اصل ضرورت یہی ہے کہ سیاسی اختلافات کے باوجود سب ایک پرچم تلے اور ایک محور کے گرد متحد رہیں۔


انہوں نے کہا: امام خمینیؒ کی فکر کے بغیر انقلاب اور نظام کو دنیا نہیں پہچان سکتی۔ یہ فکر ہماری شناخت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ تمام سختیوں اور مشکلات کے باوجود امام کے راستے پر، رهبر معظم انقلاب کی قیادت میں، انسجام اور یکجہتی کے ساتھ آگے بڑھیں