امام خمینی(رح) کو پیرس ہجرت کی تجویز کس نے دی؟

امام خمینی کی نجف سے پیرس کی تاریخی ہجرت نے ایران میں شاہی نظام کے زوال اور امریکہ کی شکست کے الارم بجا دیے

ID: 84342 | Date: 2025/10/09

امام خمینی(رح) کی نجف سے پیرس کی تاریخی ہجرت نے ایران میں شاہی نظام کے زوال اور امریکہ کی شکست کے الارم بجا دیے۔ اس ہجرت میں امام کے مشیر اور ہمراہ اُن کے فرزند حاج احمد تھے۔ امام خمینیؒ نے اپنی وصیت نامے میں بھی واضح طور پر فرمایا کہ اس تاریخی اور فیصلہ کن ہجرت کے واحد مشیر احمد تھے۔ ذیل میں امام کے اس سفر کی روداد اُن کے قریبی ساتھی کی زبانی نقل کی گئی ہے:


"امام کی پیرس ہجرت کی وجہ چند ماہ پہلے کے واقعات سے جڑی ہے۔ جب ایران میں عوامی تحریک شدت اختیار کر گئی، تو ایران اور عراق کی حکومتوں نے بغداد میں کئی اجلاس کیے اور نتیجہ یہ نکلا کہ امام کی سرگرمیاں نہ صرف ایران بلکہ عراق کے لیے بھی خطرناک بن گئی ہیں۔ عراقی عوام کی امام کے ساتھ محبت اور ایرانی زائرین کا جوش و خروش عراق کے لیے قابلِ برداشت نہ رہا۔ اس پر عراقی حکومت نے ہمارے بھائی جناب دعائیٰ کو بلایا اور امام کو عراقی حکومت کی رائے پہنچانے کو کہا۔ خلاصہ یہ تھا:



۱۔ امام صاحب عراق میں عام زندگی گزار سکتے ہیں، لیکن سیاسی سرگرمیوں سے باز رہیں۔


۲۔ اگر سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں گے تو عراق چھوڑنا پڑے گا۔


امام کا فیصلہ واضح تھا۔ مجھ سے فرمایا: "میرا اور تمہارا پاسپورٹ لے آؤ"۔ میں نے ایسا کیا۔ آقای دعائیٰ بغداد گئے مگر پاسپورٹ واپس نہ آئے۔ کچھ دن بعد عراقی خفیہ ادارے کے سربراہ سعدون شاکر امام سے ملنے آئے۔ انہوں نے حالاتِ ایران و عراق پر بات کی، مگر آخر میں وہی پرانا پیغام دہرایا۔ امام نے فرمایا: "میں جہاں بھی جاؤں، میری چٹائی ہی میرا گھر ہے" اور "میں اُن مولویوں میں سے نہیں جو زیارت کی خاطر اپنا فرض چھوڑ دیں۔"


آخرکار، برادرم دعائیٰ کو دوبارہ بغداد بلایا گیا اور عراقی حکام نے امام کی اخراج کا حتمی فیصلہ سنایا۔ امام نے کویت جانے کا ارادہ فرمایا۔ ہم نے خفیہ طور پر چند قریبی افراد کو اطلاع دی، دو دعوت نامے بنوائے اور تین کاروں میں روانہ ہوئے۔ ایک گاڑی میں امام اور میں، اور باقی میں ساتھی۔ اندھیرے میں ایک غیر معمّم شخص نظر آیا — وہ ڈاکٹر یزدی تھے، جو امام سے پیغام لینے آئے تھے اور اس ہجرت کی خبر سے بے خبر تھے۔ وہ بھی ہمارے ساتھ شامل ہو گئے۔


کویت کی سرحد پر نمازِ ظہر امام کی امامت میں ادا کی گئی، مگر عراقی مرکز سے حکم آیا: "داخلہ ممنوع!" ہمیں واپس بھیج دیا گیا۔ عراقی اہلکاروں نے ہمیں کئی گھنٹے روکے رکھا۔ رات گئے ہم ایک کمرے میں امام کے گرد بیٹھے تھے۔ میں نے قرآن سے استخارہ کیا — یہ آیت آئی: "اذهب الی فرعون انہ طغی، قال رب اشرح لی صدری و یسر لی امری" — اس سے مجھے نیا حوصلہ ملا۔


پھر ہم بصرہ گئے۔ امام نے تھوڑا آرام کیا، پھر تہجد کے لیے بیدار ہوئے۔ صبح میں نے پوچھا: "اب کہاں جائیں؟" فرمایا: "سوریہ"۔ میں نے عرض کیا: "اگر وہاں بھی اجازت نہ ملی تو؟" ہم نے تمام ہمسایہ ممالک پر غور کیا — کویت نے روکا، عرب امارات، سعودی عرب، افغانستان، پاکستان سب ناممکن تھے۔ آخر میں میں نے عرض کیا: "فرانس بہتر ہے، وہاں سے امام اپنی آواز دنیا تک پہنچا سکتے ہیں۔" امام نے قبول فرمایا۔


 


صبح میں نے عراقیوں سے کہا: "ہم بغداد جا رہے ہیں۔" انہوں نے کہا: "نجف واپس جائیں۔" میں نے کہا: "نہیں۔" آخر پوچھا: "تو پھر کہاں جائیں گے؟" میں نے کہا: "پیرس۔"


 


ہم بغداد گئے، امام نے کاظمینؑ کی زیارت کی۔ عوام کا جوش دیدنی تھا۔ اگلے روز ہم ہوائی جہاز سے روانہ ہوئے۔ عراقی اہلکاروں نے رخصت سے پہلے آقای دعائیٰ کو بلایا اور کہا: "امام واپس نہیں آ سکیں گے!" — کیا گستاخی تھی۔


ہم پیرس پہنچے۔ اسی رات ایلیزے پیلس سے نمائندے آئے۔ انہوں نے کہا: "ہم امام کی آمد سے بے خبر تھے، ورنہ اجازت نہ دیتے۔" امام نے فرمایا: "میں جہاں بھی جاؤں، اپنی بات کہوں گا۔ دنیا کو بتاؤں گا کہ تمام ظالم متحد ہیں تاکہ مظلوموں کی آواز دب جائے، مگر میں ملتِ شجاع ایران کی فریاد دنیا کے گوش گزار کروں گا۔"


یوں نوفل لوشاتو دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ مشرق سے آیا ایک مرد، مغرب کی مادی دنیا میں توحید، انسانیت، اور آزادی کا پیغام لے کر کھڑا ہوا۔ اُس نے انسان کی رہائی، اسلام کی غربت، اور استکبار کی فریبکاری کو بے نقاب کیا۔ اس آفتابِ ایمان کے ساتھ جو ماہتابِ وفا چمک رہا تھا، اُس کا نام تھا — "احمد"۔


(کتاب: مهاجرِ قبیلہ ایمان، صفحات ۱۰۶–۱۱۳)