امام خمینی (رح) کا فلسطین کے بارے میں نظریہ اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داریاں

امام خمینیؒ کی شخصیت بیسویں صدی کی اسلامی تاریخ میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہے

ID: 84345 | Date: 2025/10/09

امام خمینیؒ کی شخصیت بیسویں صدی کی اسلامی تاریخ میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہے۔ وہ نہ صرف ایران کے انقلاب کے رہنما تھے بلکہ امتِ مسلمہ کے مسائل پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ ان مسائل میں سب سے اہم مسئلہ فلسطین کا ہے، جسے امام خمینیؒ نے ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کا بنیادی اور مشترکہ مسئلہ قرار دیا۔ ان کے نزدیک فلسطین صرف ایک جغرافیائی تنازعہ نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کی عزت، غیرت اور دینی تشخص کا مسئلہ ہے۔


امام خمینیؒ نے اپنی جدوجہد کے آغاز ہی سے فلسطین کے مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل ایک غاصب اور ناجائز ریاست ہے جسے استعماری طاقتوں نے مسلمانوں کے قلب میں خنجر کی طرح پیوست کیا ہے۔ ان کے نزدیک اسرائیل کا قیام صرف فلسطینی عوام کے خلاف نہیں بلکہ پورے عالمِ اسلام کے خلاف ایک سازش ہے۔ اسی لیے وہ ہمیشہ اس بات پر زور دیتے رہے کہ فلسطین کی آزادی صرف فلسطینیوں کا نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے۔


امام خمینیؒ نے فلسطین کے مسئلے کو صرف سیاسی یا قومی مسئلہ نہیں سمجھا بلکہ اسے ایک اسلامی اور ایمانی فریضہ قرار دیا۔ وہ کہتے تھے کہ "فلسطین کی آزادی اسلام کی آزادی ہے"۔ ان کے نزدیک اگر مسلمان فلسطین کے مسئلے پر متحد ہوجائیں تو نہ صرف فلسطین آزاد ہوسکتا ہے بلکہ امتِ مسلمہ کی کھوئی ہوئی عظمت بھی بحال ہوسکتی ہے۔


ان کی قیادت میں ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد فلسطین کے مسئلے کو ایک نئی روح ملی۔ امام خمینیؒ نے انقلاب کے فوراً بعد اسرائیل کے ساتھ تعلقات ختم کر دیے اور فلسطینی عوام کے لیے ایران کے دروازے کھول دیے۔ انہوں نے یوم القدس کا اعلان کیا جو رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کا مقصد یہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان فلسطین کی آزادی کے لیے اپنی یکجہتی اور عزم کا اظہار کریں۔ آج یوم القدس عالمی سطح پر فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کی علامت بن چکا ہے۔


امام خمینیؒ کے نزدیک فلسطین کی آزادی کا راستہ صرف مزاحمت اور جہاد ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ مذاکرات اور سمجھوتے فلسطینی عوام کو ان کے حقوق نہیں دلا سکتے۔ ان کے نزدیک اسرائیل ایک ایسی ریاست ہے جو طاقت اور جبر کے ذریعے قائم ہوئی ہے اور اسے صرف مزاحمت اور اتحاد کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے۔ اسی لیے انہوں نے ہمیشہ فلسطینی عوام کو مزاحمت پر ابھارا اور امتِ مسلمہ کو ان کی عملی مدد کرنے کی تلقین کی۔


امام خمینیؒ نے یہ بھی واضح کیا کہ فلسطین کا مسئلہ صرف عربوں کا نہیں بلکہ پوری امتِ مسلمہ کا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ "اگر ہر مسلمان ایک بالٹی پانی اسرائیل پر ڈال دے تو اسرائیل بہہ جائے گا"۔ اس جملے کے ذریعے وہ مسلمانوں کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ اگر امت متحد ہوجائے تو کوئی طاقت ان کے سامنے کھڑی نہیں ہوسکتی۔


ان کے نزدیک فلسطین کی آزادی صرف ایک سیاسی کامیابی نہیں بلکہ ایک دینی اور روحانی فریضہ ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ بیت المقدس مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے اور اس کی آزادی ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ اسی لیے وہ ہمیشہ مسلمانوں کو بیداری، اتحاد اور مزاحمت کی دعوت دیتے رہے۔


امام خمینیؒ کے افکار نے فلسطینی تحریکِ مزاحمت کو نئی توانائی بخشی۔ ان کے نظریات نے نہ صرف فلسطینی عوام کو حوصلہ دیا بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو بھی فلسطین کے مسئلے پر بیدار کیا۔ آج بھی فلسطینی عوام کی جدوجہد میں امام خمینیؒ کے افکار کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔


امتِ مسلمہ کے لیے امام خمینیؒ کا پیغام یہ ہے کہ فلسطین کی آزادی کے بغیر مسلمانوں کی عزت اور وقار بحال نہیں ہوسکتا۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر مسلمان فلسطین کے مسئلے پر غافل رہے تو دشمن ان پر مزید حملے کرے گا اور ان کی سرزمینوں پر قبضہ کرے گا۔ اسی لیے وہ ہمیشہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ فلسطین کی آزادی کے لیے ہر مسلمان کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔


آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ امام خمینیؒ کا فلسطین کے بارے میں نظریہ صرف ایک سیاسی موقف نہیں بلکہ ایک ایمانی اور انقلابی نظریہ ہے۔ ان کے نزدیک فلسطین کی آزادی امتِ مسلمہ کی بقا اور اسلام کی سربلندی کے لیے ناگزیر ہے۔ آج بھی اگر مسلمان ان کے افکار پر عمل کریں اور متحد ہو جائیں تو فلسطین کی آزادی کوئی دور کی بات نہیں۔