ایرانی کی معروف خاتون مرضیہ دباغ کی ۱۵ سال کی سزار کیسے ایک سال میں تبدیل ہوئی
امام خمینی پورٹل کی رپورٹ کے مطابق،ایران کی انقلابی تاریخ میں مرضیہ حدیدچی دباغ کا نام استقلال اور مزاحمت کی ایسی مثال کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے جس نے ساواک کے بدترین تشدد کے باوجود اپنے عزم میں کمزوری نہیں آنے دی۔ ان کی پندرہ سالہ سزائے قید میں حیران کن کمی اس وقت سامنے آئی جب شدید بیماری اور جسمانی تباہی کے بعد حکومتی ڈاکٹر اس نتیجے پر پہنچے کہ دورانِ قید ان کی موت یقینی ہے۔ اسی بنا پر ساواک اور شاہی عدلیہ نے یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ زیادہ دیر زندہ نہیں رہیں گی، ان کی سزا کو کم کر دیا۔
مرضیہ دباغ کو دوسری بار گرفتاری کے فوری بعد براہِ راست زندانِ قصر منتقل کیا گیا۔ اس مرتبہ ان کے خلاف زیادہ تر ذہنی اور جسمانی شکنجے استعمال کیے گئے۔ انہیں برقی کرسی سے جھٹکے دیے گئے، شلاق برسائے گئے، جسم کو جلتی ہوئی سگریٹ سے داغا گیا اور مسلسل دوڑایا گیا، جبکہ ان کے پیروں اور کمر کے زخم پیپ اور خون سے بھرے رہتے۔ اس دوران انہیں معلوم ہوا کہ ان کی گرفتاری دراصل ان طلبا کے اعترافات کے بعد ممکن ہوئی جو پولی ٹیکنیک کے واقعات میں پہلے سے گرفتار تھے اور سخت تشدد کے باعث ان کے نام دے بیٹھے تھے۔
ساواک کی جانب سے سب سے المناک حربہ اس وقت سامنے آیا جب دباغ کو خاموش نہ پا کر ان کی چودہ سالہ بیٹی رضوانہ کو بھی گرفتاری کے بعد ان ہی شکنجوں سے گزارا گیا۔ ایک رات بھر اس کمسن لڑکی کو شلاق اور برقی صدمات دیے گئے۔ دباغ اپنی بیٹی کی چیخیں سن کر بے بس ہو گئیں اور خود بھی بے ہوشی کے عالم میں چلی گئیں۔ اسی دوران مرحوم ربانی شیرازی کی تلاوتِ قرآن نے انہیں ہوش میں واپس لایا۔ کچھ روز بعد رضوانہ کو مردہ سا وجود لئے واپس ان کی کوٹھڑی میں لایا گیا جہاں ماں بیٹی نے ایک دوسرے کی حالت دیکھ کر شدید کرب کا سامنا کیا۔
دباغ کی حالت رفتہ رفتہ اس قدر خراب ہو گئی کہ ان کے زخموں سے بدبو اٹھنے لگی، جس سے دیگر قیدی بھی اذیت محسوس کرتی تھیں۔ آخرکار انہوں نے اجتماعی طور پر شاہ کی بیوی فرح دیبا کو خط لکھ کر مطالبہ کیا کہ دباغ کو کم از کم کسی اور حصے میں منتقل کر دیا جائے۔ اس شکایت کے بعد جیل حکام نے طبی معائنہ کروایا جہاں ڈاکٹر اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ شدید بیمار ہیں اور زندہ رہنے کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس صورتحال نے ساواک کو اس نتیجے تک پہنچایا کہ ان کی قید دراصل خود ان کے لئے فوری موت ثابت ہو سکتی ہے۔
انہی حالات کے نتیجے میں دباغ کو عدالت میں پیش کیا گیا اور ان کی پندرہ سالہ سزا کو ایک سال اور چند ماہ تک کم کر دیا گیا۔ ساواک نے یہ تاثر دیا کہ یہ کمی کسی "اصلاحی" نقطہ نظر سے کی گئی ہے، لیکن حقیقت یہ تھی کہ انہیں قید میں مر جانے کا اندازہ ہو چکا تھا، اور وہ انہیں زندان کے اندر موت دیتے ہوئے سیاسی نقصان نہیں چاہتے تھے۔
رہائی سے پہلے ایک مضحکہ خیز مرحلہ بھی رکھا گیا۔ انہیں پڑھنا لکھنا سکھانے کا ڈھونگ رچایا گیا اور ایک سخت مزاج افسر روزانہ انہیں آب جیسا سادہ لفظ لکھنے کا حکم دیتا۔ دباغ جان بوجھ کر بے ربط لکیریں کھینچتی رہیں تاکہ یہ تاثر قائم رہے کہ وہ لکھنے کے قابل نہیں ہیں۔ آخرکار افسر نے مایوس ہو کر اعلان کیا کہ وہ کبھی بھی سیکھ نہیں سکتیں اور انہیں چھوڑ دینا ہی بہتر ہے۔ اس طرح انہیں رہا کر دیا گیا۔
مرضیہ دباغ بعد ازاں انقلاب اسلامی کی نمایاں چہروں میں شامل رہیں، نہ صرف ایک مجاہدہ کے طور پر بلکہ ایک مؤثر سماجی اور سیاسی شخصیت کے طور پر بھی۔ 2016 میں وہ اس دنیا سے رخصت ہوئیں، مگر ان کی داستان آج بھی ایرانی مزاحمت کی تاریخ میں ایک مضبوط اور ناقابلِ فراموش باب کی حیثیت رکھتی ہے۔