خمس

اخراجات سے کیا مراد ہے؟

تحریر الوسیلة، ج 2، ص 57

سوال: اخراجات سے کیا مراد ہے؟

جواب: اخراجات سے مراد وہ کچھ ہے کہ جووہ اپنے آپ پر ،اپنے واجب النفقہ عیال اورغیر واجب النفقہ عیال پرخرچ کرتاہے۔ جوکچھ وہ زیارات، صدقات، انعامات، تحالف، دعوتوں  اورقراردادوں  پرخرچ کرتا ہے نیز جوحقوق نذر یا کفارہ وغیرہ کے ذریعے اس پرواجب ہوجاتے ہیں  سب سال بھر کے اخراجات کے مصادیق ہیں  نیز جس چیز کی بھی اسے ضرورت ہومثلاً چوپائے ،کنیز ،غلام ،گھر ،سامان ،فرش ،اورکتب بلکہ وہ بھی کہ جس کی اسے بچوں  کی شادی ،ان کے ختنے اورعیال میں  سے کسی کی فوت اوریونہی دوسرے ایسے اخراجات جنہیں  عام طورپر ضروریات میں  شمار کیا جاتاہے۔یہ سب سال بھر کے مخارج میں  شامل ہیں  البتہ مذکورہ چیزوں  میں  معتبر یہ ہے کہ اسی حد پر اکتفاء کرے کہ جواس کے شایان شان ہو، حماقت اورفضول خرچی شمارنہ ہولہذا اگراپنے حسب حال سے اخراجات بڑھالے توسال بھر کے (مذکورہ ) اخراجات میں  شمار نہ ہوں  گے جبکہ احوط یہ ہے مخارج میں  ایسا معتدل راستہ اختیار کرے کہ جواس جیسوں  کے حسب حال ہو۔اتنا خرچ نہ کرے کہ جواس کے لائق حال نہ ہواوراس کی سطح کے دوسرے لوگ عام طور پر اتنا خرچ نہ کرتے ہوں  بلکہ اس کاضروری ہونا قوت سے خالی نہیں  ہے ۔تاہم اس جیسوں  کے مخارج میں  جومعمولاً اضافہ ہووہ سال کے مخارج میں  شمار ہوگا۔اخراجات سے مراد وہ ہے کہ جو فی الحال خرچ ہوچکا ہونہ اس کی مقدار ،وہ منہا کیا جائے۔ لہذا اگر کوئی شخص خو د سے تنگی ترشی سے گزارا کرے یااگرکوئی اس کی کوئی متبرع شخص بلاعوض مددکرے تواسے سال بھر کے اخراجات میں  شمارنہیں  کیاجائے گا۔بلکہ اگراثنائے سال میں  کسی چیز پرکچھ خرچ کرنا اس پر واجب تھا مثلاً حج ،ادائے قرض ،کفارہ وغیرہ لیکن اس نے معصیت کے طور پریابھول کریاایسا ہی کسی اوروجہ سے یہ رقم خرچ نہ کی ہوتواقویٰ کی بنا پر یہ مقدار سا ل بھر کے اخراجات میں  شمار نہ ہوگی۔

تحریر الوسیلة، ج 2، ص 57

ای میل کریں