آقائے واعظ زادہ خوانساری مرحوم جو اہل عرفان تھے اور منبر کے حوالے سے بڑے علماء میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ امام سے بہت مانوس تھے۔ انہوں نے ایک دن مجھ سے کہا برہانی آج میرے ساتھ چلو امام سے ملنے چلیں ۔ ہم امام کی خدمت میں گئے۔ ان دونوں کی پرانی دوستی تو تھی امام نے فرمایا: ’’آقائے واعظ زادہ مجھے تمہاری دوستی کے بدولت ہمیشہ کوئی نہ کوئی فائدہ پہنچتا ہے۔ چاہے علمی گفتگو ہو یا ادبی اشعار‘‘ امام کی بات یہاں تک پہنچی تھی کہ آقائے واعظ زادہ نے ایک رباعی پڑھنا شروع کیا:
گیرد ہمہ کس کمند ومن گیسویت
جوید ہمہ کس ہلال ومن ابرویت
در دائرہ دوازدہ برج تمام
یک ماہ مبارک است آن ہم رویت
امام نے بھی فی البداہہ جواب میں یہ رباعی پڑھ دی:
گشود چشم نگارم زخواب ناز از ہم
نظر کنید در فتنہ گشت باز از ہم
تو در نماز جماعت نرو کہ می ترسم
کشی امام وبپاشی صف نماز از ہم
اس کے بعد آقائے واعظ زادہ ؒ نے مولوی کا مشہور شعر پڑھ دیا:
بشنو از نی چون حکایت می کند
وز جدائی ہا شکایت می کند
امام خمینی ؒ نے جواب میں کہا:
نشنو از نی کآن نوای بینوا ست
بشنو از دل کآن حریم کبریا ست
نی بسوزد تل خاکستر شود
دل بسوزد خانہ دلبر شود