یہ کون سے آفتاب درخشاں کا ہے جنازہ
کہ جس کو ملیونہا اُجا لے بہشت ِ زہرا کی سمت لے جارہے ہیں
نوحہ بلب ، سیہ پوش و خاک برسر
یہ کیسایوم ِعزا ہے جوعشرہ محرم سے، عیدِقرباں سے قبل آیا
یہ کیسی بے رت کی فصل ِباراں ہے
جس کے اشکوں میں شہر و قریہ نہارہے ہیں
تمام کوچے،تمام میدان،سب خیاباں سیاہ پوش و فغان بہ لب ہیں
یہ عین فصل ِ بہار میں کس طرح زمستان پھر آگیا ہے
مژہ ہر برگ ِ گل کی آنسو دَمک رہے ہیں
اورآتش ِداغہائے لالہ سے دشت وکوہ ودمن کے دامن بھڑک رہے ہیں
تمام اطفال و نوجواں،تمام مرد و زناںکی آنکھوں میں غم کے تارے چمک رہے ہیں
ہلال ِ ماہِ عَزامُحرم سے پہلے اب کے نکل پڑا ہے
بیان ِ خون ِ حسین سے لب دہک رہے ہیں
مساجد ِ و مدرسہ کے تن میں دل ِ شہیداں دھڑک رہے ہیں
حسینیوں میں حسینیت کے لہو کے قطر ے چراغ آسا چمک رہے ہیں
یہ کون سا آفتاب تاباں تھا
نہتے بوڑھے،جوان،بچے
ہزار درصد ہزار پیروں سےچل رہے ہیں
ضعیف مائیں،کنواریاں،برقعہ پوش بہنیں
ہزار دردصد ہزار ہونٹوں سے کہہ رہی ہیں
ہمار ے ہتھیار ہیں حسینی،عطش سے سوکھی ہوئی زبانیں
ہمارا نعرہ ہے "جزخدا کے ہرایک طاقت ہرایک دولت سراب وفانی''
ہمار ے ہونٹوں پہ نعرہ یاحسین کے ہیں چراغ روشن
محمدوفاطمہ کے پرسہ گسار بدلیں گے اس برس طرزِ نوحہ خوانی
کہاہے روح خدا نے ان سے
کہ اب بھی تازہ ہے تیغ و خنجر،تشدد و جبر کی کہانی
فراز ِنوکِ سناں سے اُمت کو دیکھتے ہیں سر شہیداں
کہ اب بھی ہیں زینب و سکینہ اسیر زنداں
کہ اب بھی زین العبا کی گردن میں طوق،ہاتھوں میں ہتھکڑی ہے
کہ آنے والی ہے جو بھی منزل،وہ اس صعوبت سے بھی کڑی ہے
ہزار درصد ہزار آوازیں کہہ رہی ہیں
حسین کل دشت ِکربلا میں ہوئے تھے بے یاور اور تنہا
حسین اب بھی عراق میں ہیں غریب و تنہا
جنازہ آفتاب ِخاور اٹھانے والوں کے بیکراں سیل بے پتہ ہے
حسین لیکن نہیں ہیں تنہا
خمینی بُت شکن کی قلعہ کشائی کا معجزہ ہے یہ بھی
کہ آج لاکھوں کروڑں انساں زمیں کے گوشوں سے بڑھ رہے ہیں
ہراک طرف سے پکارتے ہیں
کہ اب نہ چھوڑیں گے ہم حسین ابن فاطمہ کو کبھی اکیلا
یہ آفتاب اب کبھی نہ ہوگا غروب اُفق پر
حسین دشت ِبلا میں ہیں تنہا نہیں رہیں گے
ڈاکٹر وحید اختر (پاکستان)