انتظار

امام خمینی(ره) کے نظریات میں انتظار کی ثقافت

امام خمینی(ره) کی فکر کا نچوڑ اور وہ موضوع جو ہمیشہ فکر و عمل میں امام (ره) کے مدنظر تھا اور وہ تھا ذمہ داری کو نبھانا اور الٰہی فرائض کی ادائیگی اور یہ موضوع انتظار فرج کے بارے میں ان کے نقطہ نگاہ کو دوسرے نظریات سے نمایاں کرنے کا باعث ہے

عصر حاضر میں  مسلمانوں  کے معاشرتی اور سیاسی حالات کے بارے میں  گہری شناخت کی بناپر امام خمینی(ره)  اسلامی تشخص کے احیا اور خودی کی طرف رجوع کرنے کو ہی دنیا میں  اسلام اور مسلمانوں  کی عظمت رفتہ لوٹانے کا واحد ذریعہ سمجھتے تھے اسی لئے وہ اس مسئلے کو اپنی دعوت کی بنیاد قرار دیتے تھے:

’’میں کھل کر اعلان کرتا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ (ایران) اپنے پورے وجود کے ساتھ تمام دنیا میں مسلمانوں کے اسلامی تشخص کے احیاء کے لئے جد و جہد جاری رکھے گااور کوئی دلیل نہیں کہ وہ مسلمانوں کو دنیا کے اقتدار حاصل کرنے کے لئے ضروری اصول کی پیروی کی دعوت نہ دے اور طاقت و دولت کے پجاریوں اور مکار اور دھوکہ باز عناصر کی خود غرضی اور توسیع طلبی کی راہ میں چٹان بن کر کھڑا نہ ہوجائے‘‘۔ (صحیفہ امام، ج۲۰، ص ۲۳۸)

دین اسلام کی عالمی حاکمیت میں  مہدی موعود (عج) دوسرے الفاظ میں  الٰہی وعدے کی تکمیل کا انتظار مسلمانوں  کے اسلامی تشخص کے احیا اور مغربی تہذیب و ثقافت کے سامنے احساس کمتری اور حقارت سے نمٹنے کے لئے موثر کردار ادا کرسکتا ہے، اسی لئے امام خمینی(ره) نے گہری نظر سے اسلامی تشخص کے احیا کے اہم عنصر اور دنیا میں  مسلمانوں  کی عظمت رفتہ اور شان و شوکت لوٹانے کے لئے ایک ذریعے کے طور پر انتظار کی ثقافت کو فروغ دیا ہے۔ اسلامی حکومت کے قیام کے پہلے سال اپنے ایک خطاب میں  امام خمینی(ره)  نے ’’انتظار فرج‘‘ کا مفہوم واضح کرتے ہوئے حضرت صاحب الزمان (عج) کے منتظرین کے فرائض یوں  بیان کئے:

’’ہم سب فرج امام زمانہ (عج) کے منتظر ہیں  اور اس انتظار کے دوران ہمیں  (دین کی) خدمت کرنی چاہئے۔  انتظار فرج اسلام کے اقتدار اعلیٰ کا انتظار ہے اور ہمیں  دنیا میں  اسلام کی بالادستی قائم کرنے کے لئے سعی کرنی چاہئے اور انشاء اللہ ظہور مہدی (عج) کے اسباب فراہم ہوجائیں  گے‘‘۔ (صحیفہ امام، ج۷،ص۲۵۵)

چنانچہ ملاحظہ کر سکتے ہیں  کہ امام خمینی(ره)  انتظار کا جو مفہوم پیش کرتے ہیں  اس میں  نہ صرف یہ کہ چپ چاپ اور آرام سے بیٹھ کر حالات کے سامنے تسلیم ہونے کی بات نظر نہیں  آتی بلکہ اس سلسلے میں  اسلامی اقتدار اعلیٰ کے قیام اور ظہور امام (عج) کے لئے فضا سازگار بنانے کی خاطر جدو جہد اور سعی و کوشش کی بات کی گئی ہے اور یہ مفہوم برسوں  سے لوگوں  کے ذہنوں  میں  انتظار کے معنی کے طور پر پیش کئے جانے والے مفہوم سے زمین آسمان کا فاصلہ رکھتا ہے۔

حضرت امام خمینی(ره)  اسلامی انقلاب کے مختلف مراحل پر انقلاب اور نو بنیاد اسلامی حکومت کو لاحق ہونے والے خطرات اور مسائل سے نمٹنے کے لئے عوام کو تیار کرنے کی خاطر انتظار کے بارے میں  اپنے اس مفہوم پر زور دیتے ہوئے لوگوں  کو زیادہ سے زیادہ ثابت قدمی اور سعی و کوشش کی دعوت دیتے تھے:

”مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ وہ دن آپہنچے گا جب خدا کا وعدہ یقینا مکمل ہوکر رہے گا اور مستضعفین کرہ ارض کے مالک بن جائیں گے۔ یہ خدا کا وعدہ ہے جس میں کوئی خلاف نہیں ہے لیکن ہم وہ دن دیکھ سکیں گے یا نہیں ؟ خدا کو معلوم ہے ۔ ممکن ہے بہت کم وقت میں  سامان ظہور فراہم ہوجائیں  اور ہماری آنکھیں آپ (ع)  کے رخ انور کا دیدار کر سکیں ۔ لیکن جو اس وقت اور اس دور میں  اہم ہے وہ  ذمہ داری ہے جو ہمارے اوپر عائد ہوتی ہے۔  ہم سب آپ (ع) کے وجود مبارک کے انتظار میں  ہیں  لیکن صرف انتظار سے کچھ نہیں  بن سکتا بلکہ بہت سے لوگوں  کی حالت دیکھتے ہوئے ان کا انتظار ، انتظار نہیں  ہے۔ ہمیں  اپنی حالیہ شرعی الٰہی ذمہ داریاں  نبھانی چاہئیں  اور اس سلسلے میں  کسی بھی معاملے کی پروا نہیں  کرنی چائیے۔ جو شخص انشاء اللہ خوشنودی خدا حاصل کرنے کے لئے اپنا فرض ادا کر رہا ہے وہ یہ توقع نہ رکھے کہ اس عمل کا سب کے لئے قابل قبول ہے کوئی عمل سب کے لئے قابل قبول نہیں  ہوتا ہے۔ انبیاء کے اعمال بھی سب کے لئے قابل قبول نہیں  تھے لیکن انبیاء  نے اپنے فرائض ادا کئے اور جو کام ان کو سونپا گیا تھا اس میں  انہوں  نے کوتاہی نہیں  کی۔  اگرچہ اکثر لوگوں  نے ان کی باتوں  کو نہیں  سنا۔  ہم بھی اپنی ذمہ داریاں  نبھاتے رہیں  گے اور نبھانی چاہئیں ۔  ہوسکتا ہے کہ بہت سے لوگ اس بات سے ناراض ہوجائیں  اور بہت سے افراد ہمارے کام میں  خلل ڈالنے کی کوشش کریں ‘‘۔ (صحیفہ امام، ج۱۹، ص ۱۵۴)

ای میل کریں