امام خمینی: ہم نے پایدار صلح اور دیر پا امن کے قیام کےلئے سوچنا ہے۔
انتخاب؛ ڈاکٹر حسین علائی کا کہنا تھا کہ جو جنگ کا آغاز کرتا ہے اس کے یہاں جنگ بندی کے منصوبے پر عمل درآمد کا نقشہ بھی ہونا ضروری ہے۔ سلامتی کونسل کی قرارداد 598 کے تحت جنگ بندی پر رضامندی سے جہاں ایران عراق کے مابین جنگ کا خاتمہ ہوا وہی ملک کےلئے بہت سے فوائد اور منافع بھی ظاہر ہوئے۔
ڈاکٹر نے سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر598 کی قبولیت کو ایک تاریخی تجربہ قرار دیتے ہوئے کہا: صدام کی جانب سے مسلط کردہ جنگ میں عراق کی حکمت عملی یہ تھی کہ ایران کے صوبہ خوزستان پر ناجائز قبضہ کیا جائے، تاہم ایران کی حکمت عملی جارح افواج کو ایران سے باہر نکالنے کے ساتھ ارضی سالمیت کی حفاظت نیز عراقیوں کی جانب سے ایران کو 1975ء الجزائر معاہدے کی خلاف ورزی پر اکسانے والے اقدامات کو ناکام بنانا تھا۔ اللہ کے فضل و کرم سے ایرانی حکمت عملی کو اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں میں بلکہ رائے عامہ میں کامیابی حاصل ہوئی اور دشمنوں کو مذمت۔
حسین علائی اپنے کلام جاری رکھتے ہوئے اقوام متحدہ کی قرارداد دہرایا اور کہا: امام نے فرمایا: "میں نے قرارداد منظور کر لی" نیز دوسری جگہ فرمایا: "قرارداد کی منظوری کوئی ٹیکنیکل مسئلہ نہیں، ہم نے پایدار صلح اور دیرپا امن کے قیام کےلئے سوچنا ہے"۔
ڈاکٹر علائی نے یہ کہہ کر یقین کے ساتھ تاکید کی کہ امام کے علاوہ کوئی اور آٹھ سالہ ایران عراق جنگ کا خاتمہ نہیں کرسکتا تھا۔ امام کا یہ اقدام مشیت الہی کے تحت انجام تک پہنچا ہے۔ امام کی خواہش تھی کہ صدام کی حکومت، عراقی عوام کے ہاتھوں سرنگوں ہوجائے نیز اس جنگ میں، صدام کی نابودی ہو اور اللہ تعالی کی مشیت یہ تھی کہ اس قرارداد کی منظوری سے حضرت امام علیہ الرحمہ کی خواہش پوری ہوجائے۔
حسین علائی نے مزید کہا: حضرت امام، جب اس نتیجے پر پہنچےکہ دوسرے تمام طریقے مفید اور کارگر ثابت نہیں ہو رہے ہیں تب سلامتی کونسل کی قرارداد کے ذریعے آپ نے جنگ کو منطقی انجام تک پہنچایا۔ آپ نے سلامتی کونسل کی قرارداد منظور کرتے ہوئے تمام عالمی سامراج اور خطے کے رجعت پسند حکام کے سازشوں کو ناکام بنا دیا اور وہ جس مشکل سے ہمیں دوچار کرنا چاہتے تھے، امام نے خود انہیں مشکل کی زنجیر میں جگڑ ڈالا۔
ماخذ: انتخاب، خبری ویب سائٹ