بشپ کی امام راحل (رح) سے ملاقات؛ کاپوچی بشپ کا اننقال، ایک ایسے بزرگ عیسائی کا ہاتھ سے کھو دینا ہے۔
ان دنوں میں نے قدس میں جلاوطن جناب کاپوچی بشپ کی وفات کی خبر سنا۔ ان لوگوں کےلئے جنھوں سنہ ۶۰ (1981ء) کو دیکھا ہے ان کےلئے بزرگ بشپ کا نام جانی پہنچانی ہے۔ ان کا انتقال، ایک ایسے بزرگ عیسائی کو ہاتھ سے کھو دینا ہے جو اپنی جان کے آخری سانس تک مسلمان اور غیر مسلمان فلسطینیوں کے حق پر ڈٹا رہا۔
بشپ کاپوچی ایک انٹرویو میں امام راحل (رح) کے ساتھ اپنی ملاقات کے بارے میں بتاتے ہیں:
اگر اپنا تعارف کرنا چاہوں تو کہوں گا: میں عرب اور اصل میں سوری ہوں، لیکن میری شناخت فلسطینی ہے۔ ایک لمبا عرصہ لبنان میں گزارا ہے۔ قدس کا بشپ تھا۔ میں نے فلسفہ، دینی علوم اور قانون، قدس میں پڑھا اور سنہ ۱۹۶۵ء میں قدس کا بشپ بنا، یعنی فلسطین پر قبضہ ہونے سے پہلے ۱۹۶۷ء۔
اگر میں چاہوں کہ اپنے دین کا تعارف کروں تو بطور خلاصہ کہوں گا: میرا دین، پیار و محبت کا دین ہے۔ اسقف (بشپ) یعنی والد، میری زندگی اور مزاحمت و دفاع فلسطینی عوام کی خاطر تھی۔ میں غاصب اسرائیل کے ذریعے گرفتار ہوا اور جیل میں مجھے سخت ترین اذیتیں برداشت کرنی پڑی۔
چھٹا پوپ ژان پل اللہ تعالی کی رحمت اس پر ہو، کی سفارش اور کوشش سے چار سال بعد جیل سے رہا ہوا۔ رہائی کے بعد مجھے روم جلال وطن کیا گیا۔ سنہ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۷۸ء تک جیل میں تھا۔
میرا جسم ضرور وطن سے دور جیل میں تھا، لیکن میری فکر، دل و دماغ، جذبات اور پورا وجود وہاں تھا۔ میں اپنی عوام کی خوشی کی خاطر، امام خمینی (رح) کی تہران آمد سے بڑا خوش تھا۔ آپ کی آمد سے پندرہ دن سے زیادہ نہیں گزرا تھا کہ با قاعدہ آپ سے ملاقات کی اجازت لی۔
تہران ائیرپورٹ پر ہزاروں لوگ میرے استقبال کےلئے جمع تھے۔ وہاں سے ہم امام کے گھر چلے پڑے۔ امام نے مجھے بڑی گرم جوشی سے گلا لگایا اور مجھے بوسہ دیا۔ پھر میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور صحافیوں سے مخاطب ہوئے۔ آپ سب نے کاپوچی بشپ کا استقبال کرتے ہوئے دیکھ لیا۔ دین مقدس اسلام جو اس ملک کا نعرہ ہے، پیار و محبت کا دین ہے۔