امام مظلوم (ع) کی مجالس عزا کہ جو عقل کے جہل پر، عدل کے ظلم پر، امانت کے خیانت پر اور اسلامی حکومت کے طاغوتی حکومت پر غالب آنے کا ذریعہ ہیں کو حتی المقدور پورے ذوق شوق کے ساتھ منعقد کیا جائے۔ عاشورا کے خون سے رنگین پرچموں کو ظالم سے مظلوم کے انتقام کی علامت کے طور پر بلند کیا جائے۔
ہمیں ان اسلامی سنتوں کی، ان اسلامی دستوں کی کہ جو روز عاشورا یا محرم اور صفر کے دوسرے دنوں میں سڑکوں پر نکل کر عزاداری کرتے ہیں حفاظت کرنا چاہیے۔
سید الشهداء کی فداکاری اور جانثاری ہے جس نے اسلام کو زندہ رکها ہے۔ عاشورا کو زندہ رکهنا اسی پرانی اور سنتی روایتوں کے ساتھ، علماء اور خطباء کی تقاریر کے ساتھ، انہیں منظم دستوں کی عزاداری کے ساتھ بہت ضروری ہے۔
یہ جان لو کہ اگر چاہتے ہو کہ تمہاری تحریک باقی رہے روایتی عزاداری کو محفوظ رکهو۔
خدا ہماری قوم کو کامیابی عطا کرےکہ وہ اپنی پرانی روایتوں کے ساتھ عاشورا میں عزاداری منائے۔ ماتمی دستے اپنے زور و شور کے ساتھ باہر نکلیں اور ماتم اور نوحہ خوانی بهی شوق و ذوق کے ساتھ ہو اور جان لو کہ اس قوم کی زندگی اسی عزاداری کے ساتھ ہے۔
حوالہ: قیام عاشورا امام خمینی کے کلام میں
اب جبکہ محترم علماء، خطباء، ذاکرین، سید الشہداء (ع) کے شیعوں اور اسلام کے سپاہیوں کے ہاتھ میں محرم، الہی شمشیر کی حیثیت سے موجود ہے تو انہیں اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنا چاہیے اور الہی قدرت پر بهروسہ کرتے ہوئے ظلم و ستم اور خیانت کی بچهی ہوئی جڑوں کو اکهاڑ پهینکنا چاہئے کیونکہ ماہ محرم یزیدی قوتوں اور شیطانی سازشوں کی شکست کا مہینیہ ہے۔
حوالہ: امام خمینی، تبیان ج3 ص27
جان لیں کہ اسلام کے اس تاریخی واقعہ کو زندہ رکھنے کےلئے ائمہ معصومین علیہم السلام کا جو دستور ہے اور اہل بیت (ع) پر ظلم کرنے والوں پر لعنت اور نفرت کی بارش، تاریخ کے ہر دور میں ظلم و ستم کے خوگر سربراہوں کے سر پر قوموں کی جراتمندانہ فریاد ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ بنی امیہ لعنۃ اللہ علیہم پر لعن و نفرت اور ان کی بیدادگری کے خلاف فریاد، اس کے باوجود کہ وہ جہنم واصل ہوگئے ہیں، دنیا کے ستمگروں کے خلاف فریاد، اور اس ستم شکن فریاد کو زندہ رکھنا ہے۔
حوالہ: صحیفہ نور، ج۲۱، ص ۱۷۳
بات صرف گریہ کی نہیں ہے اور گریہ دار جیسی صورت بنانے کی نہیں ہے بلکہ اس میں کچھ سیاست ہے۔ ہمارے ائمہ (ع) اپنی خداداد بصیرت کے پیش نظر یہ چاہتے تھے کہ ان قوموں کو یکجا اور متحد کر دیں تاکہ ان کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔
حوالہ: صحیفہ نور، ج۱۳، ص۱۵۳