امام خمینی (رح)کے نظریئے کے مطابق جس دنیا کی ملامت کی گئی ہے وہ انسان کے فعل کی ایک صفت ہے اس کا کوئی خارجی وجود نہیں ہے، دنیا انسا ن کی لا محدود تمناؤں کا نام ہے جب تک ان سے آزاد نہ ہوگا کس طرح کا بھی کمال حاصل نہ کر پائے گا۔
امام خمینی (رح) کا اس سلسلے میں ایک بہت اہم بیان ہے آپ فرماتے ہیں :
جو لوگ جہاد کرتے اور آگے بڑھتے تھے وہ خود اپنی اور اپنی تمناؤں کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے تھے بس آگے بڑھتے چلے جاتے تھے ان لوگوں نے کسی حد تک یہ جہاد (جہاد بالنفس) کیا تھا ۔۔۔ اور جب تک یہ جہاد نہ ہوگا وہ دوسرا جہاد (خارجی دشمن کے ساتھ جہاد) بھی نہ ہوگا، جب تک انسان اپنی تمناؤں کو پس پشت نہ ڈالے گا وہ دنیا کی طرف پشت نہ کر کے، آ گے نہ بڑھ سکے گا، دنیا انسان کی تمناؤں کا نام ہے، ہر شخص کی دنیا میں اس کی تمنائیں ہیں ۔۔۔ دنیا کو جھٹلایا گیا ہے (دنیا کی ملامت کی گئی ہے) لیکن عالم طبیعت کو نہیں جھٹلایا گیا ہے، دنیا کو جھٹلا یا گیا ہے، دنیا وہی ہے جو آپ کے پاس ہے، خود آپ جب اپنے نفس کی طرف توجہ رکھتے ہوں تو آپ ہی دنیا ہیں ، ہر شخص کی دنیا یہ ہے کہ وہ اپنے میں مشغول ہے اس کی تکذیب (و مذمت) کی گئی ہے ۔۔۔ جو چیز انسان کو ساحت قدس کمال سے دور کرتی ہے وہ دنیا ہی ہے اور وہ انسان ہی کے پاس ہے الگ سے نہیں آتی۔(تفسیر سورۂ حمد، ص ۵۶)
ہاں ! اسی مذکورہ بالا معنی میں قرآن اور معصومین (ع)کی روایات میں اور حضرات معصومین (ع) کی پیروی کرنے والوں کی نظر میں دنیا کی سخت مذمت کی گئی ہے اسے حقارت سے دیکھا گیا ہے نیز اسے خواب، فریب اور جھوٹ ۔۔۔ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ قرآن کریم میں ہے: دنیوی زندگی نے کافروں کی نظر میں جلوہ دکھا یا وہ اہل ایمان حضرات کا مذاق اڑانے لگے لیکن قیامت کے دن متقین کا مرتبہ کافروں سے بہت بلند ہوگا۔( سورۂ بقرۃ، ۲؍ ۲۱۲)
حضرت رسول اکرم (ص) نے فرمایا کہ سارے انبیاء (ع)دنیا کی طرف سے بے توجہ تھے: خدا نے کسی نبی کو مبعوث نہیں کیا مگر یہ کہ وہ دنیا کی طرف سے بے رغبت ہو۔ (مستدرک الوسائل، ج ۲، ص ۳۳۳)
حضرت امیر المومنین (ع) فرماتے ہیں : دنیا کا پانی ہمیشہ گندا وگل آلود ہوتا ہے، اس کا منظر دل فریب اور انجام خطرناک ہوتا ہے، دنیا دھوکہ باز اور حسین ہے لیکن اس میں دوام نہیں ہوتا، ایک نور ہے جو غروب کرنے والا ہے، ایک سایہ ہے جو ختم ہونے والا ہے، ایک ستون ہے جو گرنے والا ہے جب نفرت کرنے والے اس سے دل لگا بیٹھے اور بے گانہ لوگ اس پر اطمینان کر بیٹھے۔( نہج البلاغہ، خطبہ؍۸)