ذرد ہونٹوں کو میرے ہنسی مل گئی
آپ کے فیض سے زندگی مل گئی
قم کا سورج سلامت رہے حشر تک
روشنی بھی مجھے دائمی مل گئ
سامراجی پریشان ہیں کیا کریں
اشتراکی بھی حیران ہیں کیا کریں
جب خمینی ہمارے بنے راہبر
خاک میں سب کی فتنہ گری ہل گئی
سازشیں کیسے پروان چڑھ پائینگی
کفر کی ظلمتیں دور ہوجائینگی
تیرگی سوچ لے اپنے انجام کو
روشنی سے اگر روشنی مل گئی
آج بصر ے سے میان بغداد تک
سرفروشوں کے قدموں کی سُن کے دھمک
کیوں لرزتا ہے صدّام کچھ تو بتا
کیا تجھے یہ سزا واقعی مِل گئی
تیرے ظلم و ستم کی ملے گی سزا
بے گناہوں کاخوں دے رہا ہے صدا
تیرے حامی تجھے اب بچائیں گے کیا
یہ غنیمت ہے گر موت بھی مِل گئی
ہے یہ فیضی پہ فیض و کرم آپ کا
جو زمانے کی ہر اک خوشی مِل گئی
مرزا چاند بیگ فیضی - ہندوستان