تیر گئ دہر میں کھویا تھا جو اسلام ناب
کر کے لائے ہیں خمینی آج اس کو بازیاب
یہ خمینی انقلاب ہے ہی حسینی انقلاب
ڈر تو جائیں گے یزیدی ہوں گی نیندیں تو خراب
پھیل تو جاےگی خوشبو چار سو اب کو بہ کو
آگئی فصل بہار اور کھل گیا تازہ گلاب
تیز کر تلوار علم و آگہی کی دھار کو
اب نہيں بیٹھنے کا وقت چھیڑتا ہوا چنگ و رباب
صبح نور کی پو پھٹی چھٹنے لگی تاریکیاں
جلد ابھرےگا افق پر بارہویں کا آفتاب
یہ ہے مابین طلوعین کا زمانہ جاگیے
وہ علی والا ہی کیا جس کو جگائے آفتاب
حرف نہ آئےگا کبھی بھی عفت اسلام پر
دیکھتے رہتے ہیں خنزیر خوار جس کا روز خواب
راہ حق پر رہبرئ حق کی طاعت کے سبب
دشمنوں کی سازشیں ثابت ہوئیں نقش بر آب
اپنی صفوں میں خوارج کی ہے شورش سے عیاں
کاٹنے والا ہے مالک خیمہ ظلم کے طناب
سر بلند کٹوا کے بھی سر کو ہوے ہم کاٹ کے بھی
عشق کے راہی رہے ہر حال یوں کامیاب
کربلا پھر سے سجے گی ہونگے ہم پھر سرخ رو
پھر رخ اسلام پر لوٹ آئےگا حسن شباب
پرچم توحید لہرائےگا واشنگٹن میں بھی
اب کی بار مل جائےگی غازی کو اذن جنگ شتاب
ہم نہیں کوفی ہوا کے رخ پہ رخ بدلا کریں
ہم ہیں میداں میں حسینئ علی کے ہم رکاب
سرزمین انقلاب پر میں نے جب رکھا قدم
کہنے خوش آمدید مجھ کو آئے روز انقلاب
اس اداے دلربا پر کیوں نہ بدلوں خود کو میں
انقلابی ہو گیا یوں حضرت دانش مآب
کاچو یوسف دانش بلتستانی – پاکستان
۷ فروری ۲۰۱۸ء