چارسو گلشنِ ایران پہ مسلط تھی خزاں / ہوتا تھا صبح گلستاں پہ سیہ شب کا گماں
پھول مرجھائے تھے کلیوں کو ہنسی بھول تھی / روح کو قیدِ غلامی میں خوشی بھولی تھی
ہر طرف چھایا تھا ایران پہ طوفانِ بلا / گرد آلود ہوئی جس سے گلستان کی فضا
ہر زماں گوش بر آواز تھا ہر نخلِ چمن / ایک مدت سے تھے سب چشم برہ سرو و سمن
مسکرائے کوئی گل اور کوئی غنچہ مہکے / آکے گائے کوئی بھنورا کوئی بلبل چہکے
کب سحر آئے شبِ تار کا افسوں ٹوٹے / کب مسرت کا دلِ زار سے چشمہ پھوٹے
دفعتا جاگ اٹھا اہل چمن کا مقسوم / ٹوٹی زنجیرِ گراں زیست کا بدلا مفہوم
آمدِ صبح ہوئی شب کا فسوں ٹوٹ گیا / بندِ آلام سے ہر اہلِ چمن چھوٹ گیا
خواب سے سبزہ خوابیدہ نے لی انگڑائی / باغ و بن جھوم اٹھے صبحِ بہاراں آئی
جو تظلّم کے تھے زنجیر و سلاسل ٹوٹے / ظلم کافور ہوا امن کے سوتے پھوٹے
اہلِ گلشن کو نئی صبح کا پیغام ملا / قوم کو حریّت ِ فکر کا انعام ملا
قوم کو آ کے خمینی نے ہے بخشا وہ شعور / پنجہ ظلم سے آزاد ہوئے سب مقہور
ہمت عالی تھی عزائم تھے مصمم تیرے / سب ہیں ممنونِ کرم رہبرِ اعظم تیرے