اے ساقی گلفام، اٹھا جام، پلا جام / لا جام، مرے ساقی گلفام، پلا جام
ہاں، ختم ہوا سلسلۀ شورشِ ایام / لا جام
اے ساقی غنچہ لب و گلفام و دلآرام / لاجام
یہ شام، ترے نام، ترے نام / اے ساقی گلفام
ساقی، نگہِ مرد قلندر کا اثر دیکھ / پیدا جو ہوئی خاکِ عجم سے وہ سحر دیکھ
میں بندۀ آقائے خمینی ہوں ادھر دیکھ / کیا اب بھی نہ دے گا مرے ساقی، مئے گلفام
ہے یوں، کہ مجھے فکر ہے انجام کی پہلے / رک جاؤ، کہ اک بات کہوں کام کی پہلے
ٹھیروں کہ وضاحت تو کروں جام کی پہلے / خطرے میں نہ پڑجائے کہیں شیخ کا اسلام
در اصل، مجھے بادۀ کوثر کی طلب ہے / وہ یوں، کہ بہر شہرِ عجم، جشنِ طرب ہے
ظلمت کا تسلط ہے، نہ تاریکی شب ہے / کچھ ہے تو فقط جلوۀ مولائے عرب ہے
اب بھی جو نہ دے گا مرے ساقی تو غضب ہے / ہاں دے کہ ملے دل کو سکوں، روح کوآرام
غیروں سے شکایت نہیں، اپنوں سے گلا ہے / شیخانِ حرم نے مجھے، گمراہ کیا ہے
بے ذوق عبادات ہیں، بے کیف دعا ہے / انساں کو شکنجے میں جکڑ لیتے ہیں اوہام
وہ شاطرِ مغرب، جو گرا بامِ حشم سے / دہشت زدہ ہے تابِشِ خورشیدِ عجم سے
آتی ہے صدا یہ ، در و دیوارِ حرم سے / اے منکرِ حق! دیکھ تو، آئینہ ایام
اقبال کے اس قول کی دی اس نے گواہی / "مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی"
ہیبت سے زمیں بوس ہوئی سطوتِ شاہی / اور کانپ اٹھے قصرِ حکومت کے دروبام
اے تو، کہ مسلم تری عالی نسبی ہے / اے تو، کہ ترے زیرِ قدم تاجِ شہی ہے
اے تو، کہ علمدارِ نظامِ علوی ہے / اقوال میں تیرے، نہ سیاست ہے نہ ابہام
تو ہیبتِ یزاں کی علامت ہے، خمینی! / تو جانِ یقیں، روحِ صداقت ہے، خمینی!
تو محرمِ اسرارِ مشیت ہے، خمینی! / تاریخ کے سینے میں ہے محفوظ ترا نام!