زعیمِ ملت ایران و سیدِ ذی جاہ / خُود آگہی نے بنایا جسے خُدا آگاہ
زمانہ جس کی تقدس کا آج بھی ہی گواہ / ہے جس کی فکر و نظر لا الہ الا اللہ
قدم قدم پہ شریعت کا جو نگہبان ہے / وہ آیت اللہ خمینی عظیم انساں ہے
نقیب سطوت دین، انقلاب کا رہبر / پیامِ رُخصتِ شب، مژدہ طلوع سحر
یہ سچ وہ مرد خُدا، حُجتِ خُدا ہے مگر / شہنشہی کے لئے ہے وہ موت کا خنجر
پھر اس کے دل میں سُپر طاقتوں کا خوف ہوکیا / زباں پہ جس کی ہو سبحان ربی الاعلی
خمینی پیکرِ ایمان و رہ نوردِ یقیں / اس کی سعی سے ایراں ہے آج خندہ جبین
اسی نے بجلیاں مستضعفین میں بھر دیں / خمینی کیا ہے؟ اگر انسانیت کا نور نہیں
خوشا کہ اس نے جگائی ہے قسمت ایراں / اسی کے نام کے شیدا ہیں آج پیرو جواں
حصارِ ظلم سے جمہور کی صدا جو اٹھی / محل نشینوں پہ گزری قیامتوں کی گھڑی
ہوئی تمام بالآخر وہ کارگاهِ شہی / عمل میں کس طرح آیا نظامِ مصطفوی
یہ پوچھ خوانِ نبوت کے خوشہ چینوں سے / عروج حق کو مِلا بوریا نشینوں سے
یہ انقلاب ہے ایراں کی بلندی کا / یہ انقلاب ہے جمہوریت پسندی کا
ہے اس کی موجوں میں احساس دردمندی کا / اصول بھی ہے یہی آشیانہ بندی کا
کھلی فضائیں ہوں، اڑنے کو بال و پر بھی ہوں / جو لے چلیں سرِ منزل وہ راہبر بھی ہوں
ستمگرانِ جہاں کا ہو لکھ جاہ و حشم / اسے ثبات میسر نہیں خدا کی قسم
یزیدیت کے تو ہوتے ہیں عارضی دم خم / بلند رہتا هے فیضی حسینیت کا علم
نظر کے دھوکے ہیں اندازِ کوفی و شامی / چراغِ حق کی ضیاء انقلابِ اسلامی