درس

امام خمینی (رح) کے درس میں لطیف تدریسی نکات

مدرسہ فیضیہ تک دو دو طلاب کی ایک لمبی قطار بنی ہوئی تھی کہ جو راستے میں آپ کے درس میں بیان کئے گئے نکات پر ایک دوسرے سے بحث کیا کرتے تھے

امام خمینی (رح) اپنے دروس میں گہرے اور عمیق مفاہیم بیان فرماتے تھے۔ اور بنیادی و اساسی نکتہ یہ تھا کہ آپ اکثر حضرات آیات عظام مانند: نائینی، کمپانی، آقا ضیاء حائری اور ... کے نظریات کو موضوع بحث قرار دیتے اور مناسب مقام پر ان پر تنقید کرتے ہوئے اپنی نظر بیان فرماتے کہ جو ایک مشکل ترین کام تھا۔ البتہ حوزہ علمیہ کے کچھ دوسرے اساتید بھی کچھ اوقات ان بزرگوں کے نظریات پر اعتراض کیا کرتے تھے، لیکن امام کی طرح اپنے انداز میں اور ہمیشہ حقائق اور دلائل کی روشنی میں تنقید کرنا واقعا کم نظیر تھا۔ آپ ان بزرگوں کے نظریات؛ خصوصا محقق نائینی کے نظریات کو موضوع گفتگو قرار دیتے اور ان پر تنقید اور اشکال کرنے کے بعد ان کی تحریر کے اہداف و مقاصد بھی بیان فرماتے۔

مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب آپ کے شاگرد، مسجد سلمان فارسی سے باہر نکلتے تھے تو مدرسہ فیضیہ تک دو دو طلاب کی ایک لمبی قطار بنی ہوئی تھی کہ جو راستے میں آپ کے درس میں بیان کئے گئے، نکات پر ایک دوسرے سے بحث کیا کرتے تھے۔ اور یہ حسن آپ کے درس کی جاذبیت کی بنا پر تھا۔ میں نے اسی زمانے، آقا جوادی آملی سے کہاتھا: انصافا انہیں "محقق" اور مرحوم آیت اللہ محقق داماد کو "مدقق" کہنا چاہیئے کیونکہ مرحوم داماد جب روایات کو نقل فرماتے تھی تو کبھی کبھار کچھ روایتوں کے عمق اور گہرائی میں اترتے اور دقیق و ظریف نکات بیان کرتے تھے حالانکہ مرحوم استاد تحقیق و پژوہش اور نقد و حقیقت بیانی کی دنیا میں بہت قوی تھے۔ لہذا اگر کوئی اتنی صلاحیت رکھتا ہو کہ ان بزرگوں کے نظریات اور خصوصا محقق نائینی کے نظریات پر تنقید اور ان کی تحقیق کرے تو حقیقت میں وہ ایک بہت بڑا اور توانا محقق ہے۔

بہت سارے علماء مرحوم نائینی کے نظریات پر حتی تنقید کرنے کی بھی اجازت نہیں دیتے تھے کیونکہ وہ اس بات کے مدعی تھے کہ ان کے نظریات ان کی تحقیق کے عین مطابق ہیں اور حتی یہ بات میں نے اپنے مرحوم باپ کی ذات میں بھی دیکھی کہ جو واقعا مرحوم نائینی کے نظریات پر اسی طرح اعتقاد رکھتے تھے کہ جیسے بیان ہوچکا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ محقق نائینی اور محقق عراقی کے کچھ شاگرد مشترک تھے اس لئے، محقق عراقی کچھ اوقات محقق نائینی کے شاگردوں سے ان کے تفکرات اور تدریسی نکات کو سن کر اپنے دروس میں ان پر تنقید کیا کرتے تھے۔ یہ خبر جب محقق نائینی کو ملی تو آپ نے فرمایا کہ میری بات کا مقصد عموما یہ نہیں ہوتا کہ جو علامہ کاظمی، میرے دروس سے لکھ کر آپ کو بتاتے ہیں۔ اس پر محقق عراقی خوش ہوگئے اور کہا کہ اس کے بعد اگر ہم آقا نائینی کی نظرات پر اشکال کریں گے تو اس قدر تحقیق کرلینے کے بعد کریں گے کہ وہ یہ نہیں کہہ سکیں کہ میرا ہدف یہ نہیں تھا!

* امام خمینی (رح) کے شاگرد حجت الاسلام و المسلمین سید محمد حسن مرتضوی

ای میل کریں