امام خمینی (رح) گھر میں بچوں کے ساتھ بہت مہربان اور شفیق ہوتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ ہمارے سارے گھر کا ماحول محبت اور شفقت سے شرابور تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ، سنجیدہ مستقل مزاج اور بارعب بھی تھے اور عملا ہمیں ان الفاظ میں سمجھایا کرتے تھے کہ: (نہ لطفا) یعنی مہربانی کرکے یہ کام نہ کریں! اگر کوئی کام ان کی مرضی کے خلاف ہوتا تو ہمیں معلوم ہوتا تھا کہ ہم اسے نہ کریں اور اسی لئے ہم وہ کام کرنے سے گریز کیا کرتے تھے۔
ہمیشہ، ہمیں اس بات کی تاکید فرماتے کہ ہم گناہ نہ کریں اور آداب اسلامی کا پابندی سے احترام کریں۔ لیکن اس کے علاوہ ہم جس قدر گھر میں کھیلتے اور شور مچاتے کبھی بھی آپ نے اعتراض نہیں کیا۔ لیکن اگر آپ یہ سمجھتے کہ ہمارے اس کام سے ہمسایوں کو تکلیف ہورہی ہے تو سختی سے اس پر اعتراض کرتے اور ناراض ہوجاتے تھے۔
امام خمینی (رح) اتنے زیادہ جاہ و جلال اور ہیبت والے انسان تھے کہ ہم خودبخود ان سے ڈر کر اپنے اعمال و کردار کی اصلاح کیا کرتے تھے۔ آپ نے ہمیشہ پابندی سے اس بات پر عمل کیا کہ ہم کبھی دکان سے سودا خریدنے نہ جائیں اور یہی وجہ تھی کہ تربیتی حوالے سے آپ (رح) ہی ہمارے لئے بہترین نمونہ تھے۔ جس کام سے آپ (رح) ہمیں روکتے تھے ہم نے دیکھا کہ انہوں نے خود ساری زندگی میں وہ کام کبھی بھی انجام نہ دیا۔ لہذا آپ کے اس عمل کے نتیجے میں ہم بھی جبرا اور قہرا اس کام سے رک جاتے تھے۔
مجھے یاد ہے کہ میں بچی تھی اور ایک دن ہمارے گھر کے باغیچے کے لئے ایک بوڑھا شخص مٹی لے کر آیا۔ اتفاق سے جب وہ آیا تو ہم کھانا کھارہے تھے۔ امام خمینی (رح) نے ایک پلیٹ اٹھائی اور سب سے پہلے خود اپنے حصے سے کچھ چمچ کھانا اس میں ڈالا اور اس کے بعد ہمیں کہا: لیجیے آپ بھی اس میں تھوڑا تھوڑا کھانا ڈالیں تا کہ یہ ایک آدمی کا کھانا بن جائے۔ کیونکہ ہمارے پاس اضافی کھانا نهیں تھا۔ اس لئے اس ترتیب سے اس بوڑھے آدمی کا کھانا ہم نے اکٹھا کیا اور دال اور روٹی کے ساتھ اسے کھانا کھلایا۔ بچپن میں ہمیں، اس طرح کے کام اتنے اچھے لگتے تھے کہ جس کی حد نہیں۔
امام (رح) اپنی شخصی زندگی میں ہر شخص کے لئے آزادی اور حق انتخاب کے قائل تھے۔ یہی وجہ تھی کہ گھریلو زندگی میں بھی آپ (رح) کبھی بھی، بچوں اور اہلیہ کے شخصی معاملات میں ذرا برابر دخالت نہیں کیا کرتے تھے اور سب کو آزادی دی ہوئی تھی۔ جب تک کوئی خلاف شرع کوئی کام نہ کرتا۔ امام خمینی (رح) کے پوتے اور نواسے سب بہت شرارتی تھے۔ امام (رح) نے میری بیٹی سے کہ جو اپنے بچے کی شرارتوں کی شکایت لگانے آپ کے پاس گئی۔فرمایا:
میں تیار ہوں کہ جو ثواب، آپ حسین کی شرارتوں پر تحمل کرکے حاصل کررہی ہیں، اس کا اپنی ساری عبادتوں کے ساتھ سودا کروں۔ آپ کا عقیدہ تھا کہ بچوں کو ہر حال میں آزاد ہونا چاہیئے یہاں تک کہ وہ بڑا ہوجائے۔ اور جب بڑا ہوجائے تو اس وقت اس کےلئے حدود کا انتخاب کریں کہ جس سے اسے عبور نهیں کرنا چاہیئے۔