مکتب اسلام کے بارے میں امام خمینی(رح) کا نظریہ
امام خمینی کے نزدیک ''اسلام ایک ایسا مکتب ہے جو غیر توحیدی مکاتب کے برعکس تمام فردی و اجتماعی، مادی و معنوی، ثقافتی و سیاسی اور فوجی و اقتصادی مسائل میں دخالت اور نظارت رکھتا ہے اور اس (دین) میں کسی ایسے چھوٹے سے چھوٹے نکتے کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا، جو انسان اور معاشرے کی تربیت اور مادی و معنوی ترقی میں کردار ادا کرسکتا ہو۔'' پس جو شخص ان دونوں میں جدائی کی بات کرتا ہے وہ درحقیقت نہ دین کی حقیقت سے آگاہ ہے اور نہ ہی سیاست کے مفہوم کو جانتا ہے۔ ''ہمیں سیاست سے کیا مطلب'' کا معنی یہ ہے کہ اسلام کو بالکل فراموش کر دینا چاہئے، اسلام کو چھوڑ دینا چاہئے اور اسلام کو (مدارس) کے حجروں میں دفن کر دینا چاہئے۔ یہ ہماری کتابیں دفن ہوجانی چاہییں۔'' امام خمینی کے نزدیک ''اسلام کی اساس ہی سیاست ہے۔'' اور ''رسول اللہ نے سیاست کی بنیاد دین پر رکھی ہے۔'' صدر اسلام اور زمانہ پیغمبرۖ سے لے کر جب تک انحراف پیدا نہیں ہوا تھا، سیاست اور دین ایک ساتھ تھے۔''
امام خمینی کی یہ باتیں بار ہا تکرار ہوئی ہیں، خصوصاً اس مفہوم اور تعریف کے ساتھ کہ جس کے وہ سیاست کے بارے میں قائل تھے اور اس کے مطابق یہ باتیں قابل فہم بھی ہیں اور قابل قبول بھی۔ جیسا کہ پہلے بھی گزر چکا ہے کہ امام خمینی کے نزدیک ''سیاست، معاشرے کی ہدایت و راہنمائی کرنے، معاشرے کی مصلحت، انسانوں اور معاشرے کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھنے کا نام ہے۔ ان کی اس چیز کی طرف راہنمائی کرنے کا نام سیاست ہے کہ جس میں ان لوگوں اور قوم و ملت کی مصلحت ہے اور یہی چیز انبیاء سے مخصوص ہے۔'' اس نظریہ کے مطابق اسلام کے تمام احکام و قوانین سیاسی جلوہ لئے ہوئے ہیں۔ ''دین اسلام، ایک سیاسی دین ہے۔ ایک ایسا دین ہے، جس کا سب کچھ سیاسی ہے حتٰی اس کی عبادت بھی سیاسی ہے۔'' حتٰی اس نگاہ سے دیکھیں تو ''اسلام کے اخلاقی احکام بھی سیاسی ہیں۔''
بہرحال خلاصہ یہ ہے کہ یہ امام خمینی (رہ) کی شخصیت اور آپ کی پاکیزہ جدوجہد کی کرامات ہیں کہ آج پوری دنیا میں اسلامی انقلاب کی کرنیں کہیں اسلامی مزاحمت کی تحریکوں حزب اللہ، حماس، جہاد اسلامی، القسام بریگیڈ کی صورت میں نمودار ہوچکی ہیں، جنہوں نے دنیا کے شیطان صفت نظاموں کو عملی طور پر شکست دے دی ہے اور اس انقلاب اسلامی کی کرنیں نہ صرف عرب دنیا بلکہ پورے ایشیاء سمیت دنیا کے تمام گوش و کنار میں پائی جاتی ہیں، امام خمینی (رہ) کی چھبیسویں برسی کی مناسبت سے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے حکمران بھی اسلام کے سنہرے اصولوں کو اپنا طرہ امتیاز بناتے ہوئے مملکت عزیز کی ترقی کے لئے راہیں ہموار کریں اور طاغوتی نظاموں کی غلامی سے خود کو آزاد کر لیں۔