حضرت امام حسن عسکری کاعراق کے ایک عظیم فلسفی کوشکست دینا
علماء فریقین کی اکثریت کااتفاق ہے کہ آپ بتاریخ ۱۰/ ربیع الثانی ۲۳۲ ہجری یوم جمعہ بوقت صبح بطن جناب حدیثہ خاتون سے بمقام مدینہ منورہ متولدہوئے ہیں ملاحظہ ہوشواہدالنبوت ص ۲۱۰ ،صواعق محرقہ ص ۱۲۴ ، نورالابصارص ۱۱۰ ، جلاء العیون ص ۲۹۵ ، ارشادمفید ص ۵۰۲ ، دمعہ ساکبہ ص ۱۶۳ ۔
آپ کی ولادت کے بعد حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے حضرت محمدمصطفی صلعم کے رکھے ہوئے ”نام حسن بن علی“ سے موسوم کیا (ینابع المودة)۔
آپ کی کنیت اور آپ کے القاب
آپ کی کنیت ”ابومحمد“ تھی اورآپ کے القاب بے شمارتھے جن میں عسکری، ہادی، زکی خالص، سراج اورابن الرضا زیادہ مشہورہیں
آپ کالقب عسکری اس لئے زیادہ مشہور ہوا کہ آپ جس محلہ میں بمقام ”سرمن رائے“ رہتے تھے اسے عسکرکہاجاتاتھا اوربظاہراس کی وجہ یہ تھی کہ جب خلیفہ معتصم باللہ نے اس مقام پرلشکرجمع کیاتھا اورخو دب ھی قیام پذیرتھاتواسے ”عسکر“ کہنے لگے تھے، اورخلیفہ متوکل نے امام علی نقی علیہ السلام کومدینہ سے بلوا کر یہیں مقیم رہنے پرمجبور کیا تھا نیز یہ بھی تھا کہ ایک مرتبہ خلیفہ وقت نے امام زمانہ کواسی مقام پر نوے ہزار لشکر کا معائنہ کرایا تھا اور آپ نے اپنی دوانگلیوں کے درمیان سے اسے اپنے خدائی لشکر کا مطالعہ کرادیا تھا انہیں تمام باتوں کی بناپراس مقام کا نام عسکر ہوگیا تھا جہاں امام علی نقی اورامام حسن عسکری علیہما السلام مدتوں مقیم رہ کرعسکری مشہور ہو گئے
چار ماہ کی عمر اور منصب امامت
من مورخین کابیان ہے کہ عراق کے ایک عظیم فلسفی اسحاق کندی کویہ خبط سوار ہوا کہ قرآن مجید میں تناقض ثابت کرے اور یہ بتادے کہ قرآن مجید کی ایک آیت دوسری آیت سے، اورایک مضمون دوسرے مضمون سے ٹکراتا ہے اس نے اس مقصدکی تکمیل کے لیے ”تناقض القرآن“ لکھنا شروع کی اور اس درجہ منہمک ہوگیا کہ لوگوں سے ملناجلنا اور کہیں آنا جانا سب ترک کردیا. حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کوجب اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے اس کے خبط کو دور کرنے کا ارادہ فرمایا، آپ کاخیال تھا کہ اس پرکوئی ایسا اعتراض کر دیا جائے کہ جس کا وہ جواب نہ دے سے اور مجبورا اپنے ارادہ سے باز آئے ۔
اتفاقا ایک دن آپ کی خدمت میں اس کا ایک شاگرد حاضر ہوا، حضرت نے اس سے فرمایا کہ تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو اسحاق کندی کو ”تناقض القرآن“ سے لکھنے سے باز رکھے اس نے عرض کی مولا! میں اس کا شاگرد ہوں، بھلا اس کے سامنے کیسے لب کشائی کرسکتاہوں؟ آپ نے فرمایاکہ اچھا یہ تو کر سکتے ہو کہ جو میں کہوں وہ اس تک پہنچا دو، اس نے کہا کر سکتا ہوں، حضرت نے فرمایا کہ پہلے تو تم اس سے قربت پیدا کرو، اور اس پر اعتبار جماؤ جب وہ تم سے مانوس ہوجائے اور تمہاری بات توجہ سے سننے لگے تو اس سے کہنا کہ مجھے ایک شبہ پیدا ہوگیا ہے آپ اس کودور فرما دیں، جب وہ کہے کہ بیان کرو توکہنا کہ ”ان اتاک ھذا لمتکلم بہذا القرآن ھل یجوز مرادہ بما تکلم منہ عن المعانی التی قد ظننتہا انک ذھبتھا الیہا“
اگر اس کتاب یعنی قرآن کامالک تمہارے پاس اسے لائے تو کیا ہو سکتا ہے کہ اس کلام سے جومطلب اس کا ہو، وہ تمہارے سمجھے ہوئے معانی و مطالب کے خلاف ہو، جب وہ تمہارا یہ اعتراض سنے گا تو چونکہ ذہین آدمی ہے فورا کہے گا کہ بے شک ایسا ہو سکتا ہے جب وہ یہ کہے تو تم اس سے کہناکہ پھر کتاب ”تناقض القرآن“ لکھنے سے کیا فائدہ؟ کیونکہ تم اس کے جومعنی سمجھ کر اس پر اعتراض کررہے ہو ، ہوسکتا ہے کہ وہ خدائی مقصود کے خلاف ہو، ایسی صورت میں تمہاری محنت ضائع اور برباد ہوجائے گی کیونکہ تناقض توجب ہو سکتا ہے کہ تمہارا سمجھا ہوا مطلب صحیح اور مقصود خداوندی کے مطابق ہو اورایسا یقینی طور پر نہیں تو تناقض کہاں رہا؟ ۔
الغرض وہ شاگرد ،اسحاق کندی کے پاس گیا اور اس نے امام کے بتائے ہوئے اصول پر اس سے مذکورہ سوال کیا اسحاق کندی یہ اعتراض سن کر حیران رہ گیا اورکہنے لگا کہ پھرسوال کودہراؤ اس نے پھر اعادہ کیا اسحاق تھوڑی دیر کے لیے محو تفکر ہو گیا اور کہنے لگا کہ بے شک اس قسم کا احتمال باعتبار لغت اور بلحاظ فکر و تدبر ممکن ہے پھر اپنے شاگرد کی طرف متوجہ ہوکر بولا! میں تمہیں قسم دیتا ہوں تم مجھے صحیح صحیح بتاؤ کہ تمہیں یہ اعتراض کس نے بتایا ہے اس نے جواب دیا کہ میرے شفیق استاد یہ میرے ہی ذہن کی پیداوار ہے اسحاق نے کہا ہرگز نہیں ، یہ تمہارے جیسے علم والے کے بس کی چیز نہیں ہے، تم سچ بتاؤ کہ تمہیں کس نے بتایا اور اس اعتراض کی طرف کس نے رہبری کی ہے شاگرد نے کہا کہ سچ تویہ ہے کہ مجھے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا تھا اور میں نے انھیں کے بتائے ہوئے اصول پر آپ سے سوال کیا ہے اسحاق کندی بولا ”ان جئت بہ “ اب تم نے سچ کہا ہے ایسے اعتراضات اور ایسی اہم باتیں خاندان رسالت ہی سے برآمد ہو سکتی ہیں ”ثم انہ دعا بالنار و احرق جمیع ما کان الفہ“ پھراس نے آگ منگائی اور کتاب تناقض القرآن کا سارا مسودہ نذر آتش کردیا