عاشق سوختہ
دیوان حضرت امام خمینی (رح)
بس پردہ اٹھا، رخ تو دکھا، ناز یہ بس ہے
عاشق کو ترے روئے دل آرا کی ہوس ہے
چھوڑوں گا نہ میں ہاتھ سے دامن ترا، جب تک
مجھ شیفتہ میں کوئی رمق، کوئی نفس ہے
زیبائی خوباں تری زیبائی کے آگے
دریائے غضباک پہ بہتا ہوا خس ہے
بلبل کے ہیں لب بند کہ ہر سمت چمن میں
یا غلغلہ زاغ ہے یا شور مگس ہے
داد غم دل ، تو ہی بتا، کس سے میں چاہوں
کیا تو بھی سنے؟ کب مری فریاد میں رس ہے
آفاق میں جو ہے وہ رواں ہے سوئے دلدار
غوغا یہ اسی قافلہ کی بانگ جرس ہے