ماہِ مبارک رمضان اور کرونا
تحریر: سید ذہین علی کاظمی
سب کی کارکردگی لائق تحسین ہے، سرکاری و غیر سرکاری سب ادارے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ علمائے کرام بھی مبارکباد کے مستحق ہیں۔۔۔ کرونا کسی ایک ملک، ایک صوبے یا ایک علاقے کا معاملہ نہیں بلکہ اقوام عالم بلا تفریق مذہب و مسلک اس سے دوچار ہیں۔ ہمارے ہاں بھی ہر سطح پر کرونا کے مسئلے سے نمٹنے کی تگ و دو جاری ہے، البتہ کمی بیشی ہر جگہ ہوتی ہے اور بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے، میرے خیال میں مجموعی طور پر ہمیں یہ سمجھ آگئی ہے کہ یہ وقت اپنی اپنی حیثیت کو منوانے کا نہیں۔ حج و عمرہ ہو یا زیارات، حالات کی بدولت سب کچھ سب کے سامنے ہے، آج نہ صرف باہر سے آنے والے حج و عمرہ اور زیارات سے محروم ہیں بلکہ جو مکے میں ہیں، وہ بھی خانہ کعبہ نہیں جا سکتے۔ اسی طرح سے مسجد نبوی ہو یا کربلا و نجف، تمام مقامات پر قریب رہنے والے بھی زیارات سے محروم ہیں، کیونکہ اجتماعات و اکٹھ پر پابندی ہے اور طبی ماہرین کی ہدایات کے مطابق عمل کیا جا رہا۔ بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔۔۔
خانہ کعبہ ہو یا کربلا، یہ مقامات بند نہیں، مگر اجتماعات کے لیے بند ہیں۔ ہم ہمیشہ مکہ و مدینہ و کربلا و نجف کی پیروی کرنے کی بات کرتے ہیں تو پھر اب تو کسی قسم کے چون و چرا کی گنجائش نہیں۔ ان تمام مقدس مقامات پر تمام روحانی مذہبی بزرگان چاہے مفتیان دین ہوں یا مراجع عظام سب نے جو فتاویٰ دیئے ہیں، ان پر عمل ہونا چاہیئے۔ یہ وقت ہے بصیرت اور معاملہ فہمی کے اظہار کا۔ وہ نماز تراویح ہو یا دیگر مذہبی اجتماعات، محافل و مجالس عزاء اور جلوس ہوں یا دیگر پروگرامز، ہمیں عوام النّاس کی صحت و سلامتی اور مفتیانِ دین کے فتاویٰ کو اہمیت دینی چاہیئے۔ اب یہاں ریاست بھی اپنی رٹ قائم کرے، ریاست کی رِٹ ضروری ہے، تاکہ بے روزگار سیاست دانوں، دینی پروگراموں سے پیسے کمانے والوں کو عوام کی جانوں سے کھیلنے کا موقع نہ ملے۔ اسی طرح ایسے لوگوں کو بھی موقع نہیں ملنا چاہیئے، جو اپنی مشہوری کے لیے میڈیا میں رہنا بہت پسند کرتے ہیں۔ *یہ کام خود ماں کا درجہ رکھنے والی ریاست کی ذمہ داری ہے۔*
ظاہر ہے بعض لوگ عبادات کے نام پر کمائی کرتے ہیں، اُن کا ہنر ہی عبادت کے نام پر لوگوں سے پیسے جمع کرنا ہے۔ اس وقت اُنہیں اپنا دھندہ خطرے میں نظر آرہا ہے۔ وہ اپنے دھندے کیلئے اِن دنوں میں کبھی تراویح اور کبھی مجالس و جلوس کے بہانے سے لوگوں کو بیوقوف بنانے کی کوشش کریں گے۔ عوام کو بھی چاہیئے کہ وہ بھی شعور کا مظاہرہ کریں اور جو پیسے افطاری و تراویح و مجلس و جلوس، لنگر اور فطرانے کے نام پر مخصوص لوگوں کی جیبوں اور ڈبوں میں ڈالتے تھے، اس مرتبہ کرونا سمیت مختلف مریضوں اور فقراء و غرباء نیز رفاہی منصوبوں پر خرچ کریں۔ قابلِ ذکر ہے کہ تمام مکاتب فکر کے ہاں نماز جماعت کی بہت زیادہ تاکید ہے، حرم مکی ہو یا کربلا و نجف، تمام جگہ پر پابندی لگا دی گئی ہے، اصل پابندی نماز جماعت پر نہیں، جمع ہونے پر ہے، جو کہ انسانی جانوں کے لیے نقصان کا باعث ہے۔۔۔۔
راہِ حل یہ ہے کہ تراویح ہے تو گھر میں پڑھیں، مجالس ہوں یا جشن، وہ بھی گھر میں اپنے افرادِ خانہ تک محدود رکھیں، رجب المرجب اور شعبان المعظم کی اتنی اہم مناسبات عمرہ و زیارات ہوں یا جشن کی محافل، کیا ان تمام چیزوں کو تمام مقامات مقدسہ پر انجام دیا گیا۔؟ جواب آئے گا نہیں۔۔۔ 27 رجب شب بعثت یا شب معراج کیا پوری دنیا حرم مولا علی (ع) میں اجتماع ہوا؟ جواب ہے نہیں۔ دیگر مساجد میں اسی طرح 3 یا 15 شعبان کو اجتماعات ہوئے، جواب ہے نہیں۔۔۔۔۔ تو اب بھی وہی بات ہے، جب حالات ویسے ہی بتائے جا رہے اور طبی ماہرین نے احتیاط کا کہا، مراجع دین کی رائے آچکی تو میرا خیال ہے کہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے، لہذا عوام بھی اور علماء و اکابرین اپنی اپنی جگہ پر حکومت کیساتھ اس حوالے سے تعاون کریں۔
ان شاء اللہ اس بابرکت مہینے کے صدقے سے یہ وباء جلد ختم ہو جائیگی تو سب لوگ اپنی اپنی مناسبات پرسکون طریقے سے ہمیشہ کی طرح منا سکیں گے۔۔۔ اگر ہم واقعی مذہبی ہیں تو جب ہم سب کے بڑے مذہبی بزرگان یعنی فقہاء کرام یا مفتیان یا مقامات مقدسات کی صورت حال ہمارے سامنے ہے، جب نجف اشرف جو باب مدینہ العلم کا شہر ہے، وہاں ان کی شہادت کے حوالے سے اجتماعات پر پابندی کا باقاعدہ فیصلہ ہوچکا ہے تو ایسے میں ہمیں پاکستان میں بھی اسی کے مطابق چلنا چاہیئے۔شاید کوئی معروضی حالات کا بہانا کرے کہ ہر جگہ کے معروضی حالات الگ ہیں تو جناب اس وقت تقریباً پوری دنیا کے معروضی حالات خاص طور پر اہل مذہب کے حالات ماہ مبارک کو لیکر ایک جیسے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ میری رائے کو کسی مذہبی، مسلکی یا تنظیم کی عینک سے نہیں دیکھا جائے گا بلکہ میری گزارش یہ ہے کہ یہ مت دیکھیے کہ میں کون ہوں بلکہ یہ دیکھیے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں!! اللہ ہم سب کا حامی و مددگار ہو۔