مرحوم شیخ عباس قمی

مرحوم شیخ عباس قمی کے ساتھ سفر کرتے ہوئے امام خمینی (رح) کی کچھ یادیں

سورج کی روشنی گاڑی پر پڑرہی تھی اور گرمی میں ہونے والی بارش ہمارے سروں پر ہورہی تھی

مرحوم شیخ عباس قمی کے ساتھ سفر کرتے ہوئے امام خمینی (رح) کی کچھ یادیں

 

سورج کی روشنی گاڑی پر پڑرہی تھی اور گرمی میں ہونے والی بارش ہمارے سروں پر ہورہی تھی۔ بیابان جھلس رہا تھا اور حد درجہ ہماری آنکھوں میں رنگ بدل رہا تھا اور نیل پڑگیا تھا اور دور سے بھی کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اچانک ہماری گاڑی جو مشہد سے تہران جانے والی تھی رک گئی۔ ڈرائیور ایک بلند قامت اور درمیانی شکل کا انسان تھا وہ تیزی سے گاڑی سے نکلا اور گاڑی کو ٹھیک کرنے کے بعد بہت جلدی غصہ کے عالم میں گاڑی میں داخل ہوا اور بولا: ہاں پنچر ہوگئی۔ اس وقت ہماری سیٹ پر جو در میان میں تھی کے پاس آیا لیکن ہارے سید ہونے کی وجہ سے کچھ نہیں کہا لیکن شیخ عباس قمی کی طرف مخاطب ہوکر بولا: اگر میں جانتا تو تجھے ہرگز سوار نہ کرتا کیونکہ تمہاری نحوست ہے کہ میری گاڑی اس تپتے اور خوفناک صحرا میں خراب ہوگئی ہے۔ نیچے اترو اور دوبارہ سوار نہ ہونا۔

البتہ ڈرائیور کی کسی حد تک تقصیر نہیں تھی بلکہ اس وقت کی دین مخالف طاغوتی حکومت تھی جس نے عوام کو علماء اور روحانیوں سے بدگمان رکھا تھا اور اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کرتی تھی کہ اکثر لوگ علماء کے قدم کو منحوس جانتے تھے کیونکہ اگر انھیں کوئی مشکل پیش آئی تھی اور کوئی روحانی ہوتا تھا تو اس مشکل کا سبب اس عالم کو سمجھتے تھے۔ اس وقت کا ایسا ماحول تھا۔

اسی سفر میں ڈرائیور کی گستاخی پر مرحوم شیخ عباس قمی کچھ نہیں بولے اور اس پر کوئی اعتراض نہ کیا اور اپنا سامان اٹھا کر گاڑی سے اتر گئے۔ میں بھی اٹھ کر گاڑی سے نیچے آنے لگا لیکن وہ مجھے روکنے لگا لیکن میں نے اصرار کیا کہ میں انھیں تنہا نہیں چھوڑ سکتا لیکن اس سے ان کے ساتھ ہونےکو قبول نہیں کیا۔ میں جتنا اصرار کرتا تھا وہ اتنا ہی مجھے روکتا تھا۔ آخر کار میں نے کہا: میں راضی نہیں ہوں کہ تم یہاں رہ جاؤ۔ جب میں نے اس کی یہ بات سنی تو دیکھا کہ یہاں پر مزید رکنا اس کی ناراضگی کا سبب ہوگا اور میں اپنی طبیعت کے خلاف خداحافظی کرکے گاڑی پر سوار ہوگیا۔ جب کچھ دنوں بعد اسے دیکھا تو میں نے ان سے اس دن کا واقعہ پوچھا؟ کہا: جب تم لوگ چلے گئے تو میں گاڑی کے لئے بہت زیادہ پریشان ہوا جس گاڑی کو بھی ہاتھ دیتا تھا وہ نہیں رکتا تھا۔

آخر کار اینٹ لادینے والی ٹرک رکی۔ جب میں سوار ہوا تو محسوس کیا کہ ڈرائیور ہمدرد اور اچھا انسان ہے اور پر جوش انداز میں مجھے سوار کیا اور مجھے قبول کیا۔ بہت جلد ہی ہم دونوں گھل مل گئے۔ کچھ دیر گفتگو کے بعد معلوم ہوا کہ وہ ارمنی ہے اور وہ ہمدان جارہا ہے۔ اتفاق سے میں بھی ہمدان جارہا تھا۔ چونکہ مدت سے کچھ مطالب کی تلاش میں تھا اور وہ کہیں نہیں مل رہے تھے صرف اتنا معلوم تھا کہ ہمدان میں مرحوم آخوند ہمدانی کی لائبریری میں ہی اس لئے ہمدان جانا چاہتا تھا۔ ڈرائیور اگر چہ ارمنی تھا لیکن بہت اچھا اور خوش مزاج انسان تھا۔ میں نے بھی موقع غنیمت جانا اور اسلام کے نورانی احکام اور دین مبین اسلام کی حقانیت اور مذہب شیعہ کی حقانیت سے متعلق احادیث بیان کی۔ جب میں نے اسے مشتاق اور سننے کا خواہشمند دیکھا تو مزید بیان کیا اور کوشش کی کہ ایسے مطالب اور احادیث بیان کروں جس سے اس کا زندہ اور بیدار ضمیر مزید زندہ اور شاداب ہوجائے۔

یہاں تک ہمدان سے نزدیگ ہوگئے اور جب ڈرائیور پر نظر پڑی تو دیکھا کہ اس کی آنکھ سے آنسو جاری ہیں اور رو رہا ہے۔ میں نے اس کا یہ حال دیکھ کر کچھ نہیں کہا۔ کافی دیر تک خاموش رہا لیکن کچھ ہی دیر بعد اس نے سکوت توڑ دیا اور اشک آلود آنکھ کے ساتھ بولا: میں نے تمہاری باتوں سے نتیجہ نکالا کہ دین اسلام حق اور جاودانی ہے اور میں اب تک غلط فہمی میں تھا۔ گواہ رہو کہ میں اسی وقت تمہارے سامنے مسلمان ہورہاہوں اور گھر جا کر پورے خاندان کو مسلمان کردوں گا جو میری بات مانے گا۔ اس کے بعد کلمہ شہادتین جاری کیا: اشهد ان لا اله الا الله و ان محمدا رسول الله و اشهد ان علیا ولی الله۔

خدا کے بارے میں غور کرو کہ وہ کیا کرتا ہے۔ گاڑی پنچر ہوجاتی ہے، ڈرایئور اتار دیتا ہے اور ٹرک آتا ہے اور وہ وہیں جاتا ہے جہاں وہ چاہتے ہیں اور ان سب سے اہم بات یہ ہے کہ نسل در نسل مسلمان ہونے والوں کا ثواب مرحوم شیخ عباس قمی کے نامہ اعمال میں لکھتا ہے اور ان کی نیکیوں میں اضافہ کرتا ہے۔ یہ اس عظیم ہستی کی بلند و بالا روح کا کرشمہ تھا جس نے اسے قضائے الہی کا تابع بنادیا کہ آپ نے پورا وجود خدا کی راہ میں فدا کردیا تھا۔ خدا اس طرح ہے کہ انھیں عطا کرتا ہے۔ اگر ہم دونوں میں سے کوئی بھی تنگ نظر ہوتا اور ڈرائیور سے لڑائی کرنے لگتے اور اس سے پوچھتے کہ میری گناہ کیا ہے؟ اور اترنے کے لئے تیار نہ ہوتے لیکن یہ اللہ کی مشیت تھی کہ اس راہ سے میرے ذریعہ دین حق کی دعوت دیتا ہے۔ یہ عظیم ثواب خدا نے صبر و تحمل کی وجہ سے ہے جو ہم نے خدا اور دین کی حفاظت کے لئے صبر کیا تھا۔ تمام بزرگان جو دین کا درد رکھتے تھے اور دین الہی کے لئے اپنی جان قربان کردی ہے؛ شاد رہیں اور انبیائے الہی کے ساتھ محشور ہوں۔

ای میل کریں