قلم

نون و القلم و ما یسطرون

قلم، عقل و معرفت، انسانوں کے خیالات اور جذبات اور صاحبان قلم کی شخصیت اور ان کے نظریات کی ترجمانی کرتا ہے

نون و القلم و ما یسطرون

 

4/ جولائی ایران کے کلینڈر میں "روز قلم" سے جانی جاتی ہے۔ یہ تاریخ انجمن قلم کی تجویز اور عمومی ثقافت کابینہ کی منظوری سے جمہوری اسلامی ایران میں یہ تاریخ روز قلم سے مشہور ہوئی ہے۔

ایران کی سرزمین پر قلم کا بہت قدیم سابقہ ہے۔ صدیوں پہلے ایران باستان میں 3/ جولائی کو بڑے پیمانہ پر جشن منایا جاتا تھا اور اس کے مخصوص قوانین ہوتے تھے۔ انھی میں سے ایک قلم کی حفاظت اور پاسداری تھا۔ اس جشن کی وجہ یہ ہے کہ ایران کا بادشاہ ہوشنگ نے صاحبان قلم اور مصنفین اور مولفین اور کاتبوں کو قانونی حیثیت دی اور ان کی دلجوئی اور تشویق کی تھی لہذا لوگوں نے اس دن جشن منایا اور یہ تاریخ عظمت قلم اور اس کی اہمیت کے عنوان سے بطور یادگار باقی رہ گئی اور آج بھی ہے۔

دوسری دلیل یہ ہے ابوریحان بیرونی کی تحریر کی روشنی میں 3/ جولائی عطارد ستارہ کا دن ہے اور عطارد ستاروں کا کاتب ہے اس لئے یہ دن لکھنے والوں ے نام سے یا روز قلم کے عنوان سے یاد کیا جاسکتا ہے۔

ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی محمد علی سیانلو جیسے معروف شعراء، مصنفین اور مولفین نے بھی 3/ جولائی کو روز قلم اور صاحبان تالیفات اور تصنیفات سے 4/ جولائی کو موسوم کرنے کی تجویز دی تھی اور 4/ جولائی انجمن قلم کی جانب سے روز قلم کے نام سے مشہور ہوا۔

قلم، عقل و معرفت، انسانوں کے خیالات اور جذبات اور صاحبان قلم کی شخصیت اور ان کے نظریات کی ترجمانی کرتا ہے۔ قلم انسانوں کی دوسری زبان ہے۔ 20/ ویں صدی کے آغاز میں اس کے بارے میں کسی فرد کو شک و تریدی نہیں رہ گئی تھی کہ قلم اور کاغذ کو معلومات کی ذخیرہ سازی کا اہم ترین اور موثر ترین وسیلہ جانے کیونکہ اس وقت کا معاشرہ قلم اور کاغذ پر تکیہ کرنے والا معاشرہ بن چکا تھا۔

اگرچہ اس وقت کمپیوٹر اور دیگر وسائل کے آنے اور دنیا میں ترقی ہوجانے سے قلم اور کاغذ کا استعمال کم ہوتا جارہا ہی لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ وسائل کے آنے اور دنیا میں ترقی ہوجانے سے قلم اور کاغذ کا استعمال کم ہوتا جارہا ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ وسائل جو بھی بن جائیں وہ قلم اور کاغذ ہی کا دوسرا وسیلہ ہیں۔ یہ بھی طے ہے کہ اب تک الکٹرانک لائبریری اور قلم و کاغذ کے بغیر کوئی ادارہ اور کتاب کے بغیر کوئی سماج دیکھنے میں نہیں آیا ہے اور شاید کبھی دیکھنے کو ملے بھی نہیں۔

خداوند کریم نے قرآن کریم میں قلم کی قسم کھائی ہے اور یہ قلم کی قسم کھانا اس کی عظمت، شرافت اور اہمیت پر بولتا ثبوت ہے۔ "قلم اور جو لکھتے ہیں اس کی قسم" دوسری جگہ پر کہا: "وہ ذات جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی۔" زبان سے نکلی ہوئی بات، فراموشی کی نذر ہوجاتی ہے اور وقت کے ساتھ لوگوں کے ذہن میں نہیں رہ جاتی لیکن قلم سے لکھی ہوئی بات ہمیشہ محفوظ رہتی ہے۔ بیان اور سخن عمومی طور پر دقیق نہیں ہوتے لیکن لکھے ہوئے مطلب عمیق، گہرے اور فکری ہوتے ہیں اور لکھنے والے کی دقت نظر کا پتہ دیتے ہیں۔

ای میل کریں