اسرائیل ایک نسل کے بعد نابود ہوسکتا ہے

اسرائیل ایک نسل کے بعد نابود ہوسکتا ہے

سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل ایک حقیقی سماجی اور معاشی یکجہتی اور عسکری طاقت سے بہرہ ور ہے؟

اسرائیل ایک نسل کے بعد نابود ہوسکتا ہے

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

 

ابنا۔ یہودی ریاست کی خفیہ ایجنسی شین بیت (شاباک) کے سابق سربراہ (2005ء-2011ء) نے ایک کالم شائع کرکے ان خطرات کی طرف اشارہ کیا ہے جو یہودی ریاست (اسرائیل) کے وجود کو خطرے میں ڈالتے ہیں اور کہا ہے کہ اسرائیل ممکنہ طور پر ایک نسل کے بعد نابود ہوجائے گا۔ 

شین بیت کے سابق یوفال دیسکین (yuval diskin) نے ایک کالم کے ضمن میں - جو حال ہی میں صہیونی اخبار یدیعوت اخرونوت (Yedioth Ahronoth) میں شائع ہؤا ہے- ان خطرات کے حوالے سے خبردار کیا ہے جو ایک نسل (یعنی 25 سال) بعد، یہودی ریاست کے وجود کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ یوفال کے مطابق، غاصب ریاست کو درپیش خطرات بیرونی نہیں بلکہ اندرونی ہیں۔

یوفال نے لکھا:

اگر اسرائیل اسی وقت اپنے حالات کی اصلاح نہ کرے، تو یہ ایک قابل قدر فرصت کو کھو جائے گا اور ممکن ہے کہ اسرائیلی ریاست اگلے چند سال بعد، ایسے ہی دنوں میں دنیا کے نقشے سے غائب ہوچکی ہو۔

اسرائیل ایک نسل بعد نابود ہوسکتا ہے / ہم مزید النقب، الجلیل اور قدس کے انتظام سے عاجز ہیں

آج ہم (صہیونیوں) کو سیاسی بحران کا سامنا ہے اور ایک پائیدار اور مستحکم کابینہ تشکیل دینے سے عاجز ہیں اور جو کچھ اس سلسلے میں ہورہا ہے وہ ایک بیہودہ نمائش ہے اور یہ نمائش اسرائیل کو درپیش موجودہ بحرانی صورت حال میں تزویری مسائل اور حکمرانی کے سلسلے میں فیصلوں، کے تمام مواقع کو ضائع کررہی ہے؛ جبکہ ہمیں درپیش بحران کورونا کے پھیلاؤ کی وجہ سے شدید سے شدیدتر ہوچکا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل ایک حقیقی سماجی اور معاشی یکجہتی اور عسکری طاقت سے بہرہ ور ہے؟ کیا ہم اپنی سلامتی کے حوالے سے کافی شافی صلاحیت کے حامل ہیں؟ کیا ہم ایک نسل کے بعد اسرائیل کی حیات کو جاری رکھنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟ البتہ میں ابھی ایران کے جوہری خطرے کی بات نہیں کررہا ہوں، میں حزب اللہ کے میزائلوں کی بات نہیں کررہا ہوں، میں اسرائیل نامی ریاست کے اندر کی آبادی، سماج اور معیشت میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کی بات کررہا ہوں، جو اسرائیل کے تشخص کو بگاڑ رہی ہیں اور ایک نسل کے بعد یہی تبدیلیاں اسرائیل کی موجودگی کے لئے بنیادی خطرہ ہیں۔

اسرائیلیوں کے اندرونی اختلافات میں مسلسل شدت آرہی ہے؛ دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں کے درمیان دراڑیں یہودیوں اور عربوں کے درمیان کی شگاف سے کہیں زیادہ وسیع ہوچکی ہیں؛ حکمران اداروں پر عدم اعتماد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، اندرونی حکمران مشینری کے اندر بدعنوانیاں انتہا کو پہنچ چکی ہے، سماجی یکجہتی کی سطح بہت گری ہوئی ہے اور اسرائیل کی قیادت کسی خاص اور معینہ و کارآمد نمونے کی پیروی نہیں کررہی ہے۔

ہم میں سے بہت سے اسرائیلی رکن پارلیمان یا کنیست (Knesset) اور (یہودی ریاست کی کیبٹ الائنس کے سربراہ مخلوف میکی زوہر (Makhlouf "Miki" Zohar) کی طیش زدہ ذہنیت کا ثمرہ ہیں؛ اور بالکل واضح ہے کہ اسرائیلی ریاست النقب، الجلیل اور القدس کے بہت سے علاقوں کے انتظآم و انصرام سے عاجز ہوچکی ہے۔

موجودہ حقائق اور اسرائیل کے مرکزی ادارۂ اطلاعات (شین بیت) کی معلومات کے مطابق، ہم بہت جلد سمجھ لیں گے کہ اسرائیلی ریاست کی نصف آبادی 40 سال بعد، حریدیوں (آرتھوڈوکس یہودیت کے بنیاد پرستوں) اور عربوں پر مشتمل ہوگی۔ بہت اہم بات ہے کہ ہم سمجھ لیں کہ آج ان معاشروں کے اشتراک کا عامل کیا ہے اور یہ دو معاشرے 30 یا 40 سال بعد اسرائیل کے وجود کو کس طرح متاثر کریں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ حالیہ برسوں میں مختلف اسرائیلی حکومتوں نے ان دو معاشروں کی طرف کوئی توجہ نہیں دی ہے؛ چنانچہ یہ دو معاشرے اسرائیل کے سماجی اور معاشی اداروں میں نہیں کھپ سکے ہیں؛ لہذا ان کی آمدنی بہت کم ہے۔ علاوہ ازیں، یہ معاشرے اسرائیل کی عسکری اور خدماتی حوالے سے بھی اسرائیل کا کوئی بوجھ نہیں اٹھاتے اور صہیونیت مخالف جذبات کے حامل ہیں؛ چنانچہ آخرکار اسرائیلی ریاست ان کو قابو میں رکھنے سے عاجز و بےبس ہوجائے گی۔

مستقبل قریب میں حریدیوں اور عربوں کو چھوڑ کر باقی اسرائیلیوں کی خصوصیات کچھ یوں ہونگی: سیکولر طبقات، تلمودی طبقات اور مشرقی اور اشکنازی یہودی۔ ان طبقوں کے اندر بھی معاشی اور سماجی لحاظ سے اوسط طبقات اور امیر نیز کمزور اور غریب طبقات پائے جاتے ہیں؛ جو اسرائیل کی معیشت اور سماج میں حریدیوں اور عربوں کی عدم شراکت داری کی وجہ سے، اضافی بوجھ اور سنگین مسائل سے دوچار ہونگے۔

توقع کی جاتی ہے کہ آج سے 30 سال بعد، فوج میں جبری خدمات، معیشت میں زیادہ تر ٹیکس اور فوجی خدمات کا زیادہ تر بوجھ نوآبادیوں میں مقیم صہیونیوں کی ایک تہائی آبادی کے کندھوں پر ہوگا۔

بالآخر یہ کہ، یہ مسئلہ بالکل روشن اور واضح ہے اور اس کی فہم و ادراک کے لئے لمبی چوڑی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے کہ اسرائیلی معاشرہ ان حالات میں معاشی، سماجی اور سلامتی کے حوالے سے درپیش چیلنجوں کے مقابلے میں مزاحمت نہیں کرسکے گا؛ اور اس سے بھی زیادہ حطرناک نکتہ یہ ہے کہ بہت سے اسرائیلی دوسرے ممالک میں، ایک دوسرے سے الگ تھلگ، زندگی گذارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

ای میل کریں