علیؑ منبع بشریت ِانسانی

علیؑ منبع بشریت ِانسانی

خالص ایمان، فداکارانہ جھاد، امرونہی الہیٰ کے سامنے تسلیم محض ہونا

علیؑ منبع بشریت ِانسانی

 

تحریر: سویرا بتول

 

جیسے ہی ماہِ رجب کا آغاز ہوتا ہے، تمام شیعانِ حیدرِ کرارؑ میں خوشی کی ایک لہر دوڑ پڑتی ہے۔ ماہِ رجب جہاں اپنے اندر بہت ساری عظمتیں اور فضیلتیں سمیٹے ہوئے ہے، وہیں یہ مہینہ جانشینِ پیغمبر امیر المومنین علی ؑابنِ ابی طالب کی ولادت کے حوالے سے بھی بہت اہم ہے۔ وہ علیؑ جو آسمان کے راستوں کو زمین کے راستوں سے زیادہ جانتے ہیں۔ وہ صاحب سلونی جن کی ایک ضربت ثقلین کی ہزار رکعت کی عبادت سے افضل ہے۔ جنہیں رسولِ خداﷺ سے وہی نسبت ہے، جو جنابِ ہارونؑ کو جناب موسی ؑ سے تھی، سوائے اس کے کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔

علیؑ کے مرتبوں کا حال کوئی اور کیا جانے

جناب سرور کونین جانیں یا خدا جانے

 

ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم علیؑ میں انسانیت کے کمال کو تلاش کریں، نہ کہ فرشتوں کی صفات کو۔ لیکن اب تک ہمارا طرزِ فکر غیر اسلامی ہے بلکہ یہ طرز فکر اسلام سے پہلے کا ہے۔ اس کے تحت ہم علی علیہ سلام کو دیکھتے ہیں اور پھر علیؑ اور اپنے دوسرے رہبروں کو فرشتہ ثابت کرتے ہیں، جس کا رہبری سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ فرشتوں کی پیروی نہیں ہوسکتی اور فرشتہ انسانی معاشرے کو نجات عطا نہیں کرسکتا، یہ صرف عظیم انسان کا کمال ہے کہ وہ کُل انسانیت کو نجات بخش سکتا ہے، وہ عظیم انسان کوئی اور نہیں علیؑ ہے۔

خالص ایمان، فداکارانہ جھاد، امرونہی الہیٰ کے سامنے تسلیم محض ہونا، خدا کی مطلق اطاعت و بندگی، دنیوی زرق و برق و مادی امور سے بے اعتنائی، عوام الناس کے لئے رحم دل، انصاف پسند اور عادل ہونا، مظلوموں، کمزوروں اور ستمدیدہ افراد کے لئے جذبہ رحمت کا حامل ہونا، دشمنانِ دین کے مقابل پرعزم و استقامت ہونا، ہر طرح کے حالات و سختیوں اور دشواریوں میں دینی فریضہ انجام دینا، یہ ایسے حکمت آمیز کلمات ہیں کہ ماضی، دورِ حاضر اور کل کے انسان کو ان کی ضرورت ہے۔ امیرالمومنین علیہ السلام کا نہج البلاغہ انسان کے لئے ہمیشہ مشعل راہ ہے۔

کیا غم ہے اُس کو جس کا علیؑ دستگیر ہے

حامیِ حشر ذاتِ جنابِ امیر ہے

معشوق خلق، عاشقِ ربِ قدیر ہے

جو بادشاہ ہے اسی در کا فقیر ہے

زوجِ بتولِؑ پاک کو جو مانتا نہیں

حق تو یہ ہے کہ حق کو بھی پہنچاتا نہیں

 

اب آیئے خود سے سوال پوچھیے کہ ہم جو صبح و شام مولائے کائنات ؑکی ولایت کا دم بھرتے ہیں، ہم نے نہج البلاغہ آخری دفعہ کب کھولی تھی؟ وہ کلام جو تحت کلامِ خالق و فوق کلامِ مخلوق کا مصداق ہے، جو الہامِ ربانی کا عطیہ اور لسان اللہ کے تکلم کا اثر رکھتا ہے، آخری دفعہ اُس سے استفادہ کب کیا تھا؟ آخری دفعہ اپنے محبوب کے کلام کو اپنی آنکھوں سے خیرہ کب کیا تھا؟ علیؑ یتیموں کے سرپرست ہیں، ہم نے کتنے یتیموں کے سروں پر دستِ شفقت رکھا؟ علی ؑ عاشقِ خدا ہیں، شب زندہ دار ہیں، ہر رات ہزار رکعت نوافل ادا کرتے ہیں، ہم نے خدا سے کتنی دفعہ مناجات کی؟ آخری دفعہ خدا سے راز و نیاز کب کیا؟ علیؑ عادل ہیں اور اس قدر عدالت کے مدعی ہیں کہ لوگوں نے علیؑ کو اُن کے عدل کیوجہ سے تنہا کر دیا، ہم نے اپنی ذات میں کتنا عدل قائم کیا۔؟

نامِ زیبائی امیر المومنینؑ در ذھن ھا

واژہ ھای عدل و عدالت را مجسم می کند

 

ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم علیؑ کی محبت کے مرحلے میں اٹک کر رہ گئے ہیں اور ابھی علیؑ کی شناخت کے مرحلے تک بھی نہیں پہنچے۔ حالانکہ علیؑ کا محب ہونا  علیؑ کے عمل کو اپنانے سے شروع ہوتا ہے اور یہ عمل شناخت اور عشق کے بعد کا مرحلہ ہے۔ ہم نے اپنا سارا وقت امامؑ علیہ سلام کی ستائش میں گزارا ہے، اُن کی شناخت میں نہیں۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیئے کہ بغیر معرفت کے محبت عشق نہیں بُت پرستی ہے۔ آج جس دور سے ہم گزر رہے ہیں، وہ امیر المومنین ؑ کی حکومت کے دور کی طرح ہے۔ تمام تر امتحانات، مشکلات بالکل اسی دور کی طرح ہیں اور آج کے دور کے فتنے بھی امیر المومنین علیہ السلام کے دور کے فتنوں کی طرح ہیں۔ آج رہبر معظم کی مظلومیت امیر المومنین علیہ السلام کی مظلومیت یاد دلاتی ہے۔ لہذا فتنوں سے نجات کے لیے ضروری ہے کہ ہم نہج البلاغہ کا دامن تھامیں، وہ جو الہامِ ربانی کا عطیہ اور لسان اللہ کے تکلم کا اثر رکھتا ہے۔

ای میل کریں