امام حسین

امام حسین علیہ السلام کو نجات کی کشتی کیوں کہا گیا؟

لہذا آج بھی کشتی چل رہی ہے اور اس پر بیٹھ کر نجات حاصل کر سکتے ہیں۔

امام حسین علیہ السلام کو نجات کی کشتی کیوں کہا گیا؟

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ان الحسین مصباح الھدی و سفینۃ النجاۃ حسین ہدایت کے چراغ اور نجات کی کشتی ہیں امام حسین علیہ السلام کا اھل بیت علیھم السلام میں سے ہیں جو ثقلین میں سے ایک ہیں جن کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے امت کی کی نجات کے لئے چھوڑا ہے اسی لئے امام حسین علیہ السلام بھی نجات کا حصہ ہیں جس کے بارے میں خود حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ  مَثَلُ أهلِ بَیتی فیکُم مَثَلَ سَفینَهَ نُوحٍ مِن قومِهِ مَن رَکِبَهَا نَجَا وَ مَن تَخَلَّفَ عَنهَا غَرِق میرے اھل بیت کی مثال کشتی نوح کی طرح ہے جو بھی اس میں سوار ہوگا وہ نجات پائے اور جس نے بھی اس منہ موڑ لیا وہ غرق ہوجائے گا یعنی جو اھل بیت علیھم السلام کے تمسک رکھے اسے دنیا ور آخرت میں کامیابی ملے گی اور جو انا کا دامن چھوڑ دے گا وہ دنیا اور آخرت میں ہلاک ہو جائے گا،خداوند کریم نے امتحان کے طور پر بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ ایک خاص دروازے سے بیت المقدس میں داخل ہوں اور طلب مغفرت کرتے ہوئے اس مکان میں قدم رکھیں تاکہ نجات حاصل کر سکیں۔

جماران خبر رساں ایجنسی نے تیسری شعبان المعظم کی مناسبت سے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ان الحسین مصباح الھدی و سفینۃ النجاۃ حسین ہدایت کے چراغ اور نجات کی کشتی ہیں امام حسین علیہ السلام کا اھل بیت علیھم السلام میں سے ہیں جو ثقلین میں سے ایک ہیں جن کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے امت کی کی نجات کے لئے چھوڑا ہے اسی لئے امام حسین علیہ السلام بھی نجات کا حصہ ہیں جس کے بارے میں خود حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ  مَثَلُ أهلِ بَیتی فیکُم مَثَلَ سَفینَهَ نُوحٍ مِن قومِهِ مَن رَکِبَهَا نَجَا وَ مَن تَخَلَّفَ عَنهَا غَرِق میرے اھل بیت کی مثال کشتی نوح کی طرح ہے جو بھی اس میں سوار ہوگا وہ نجات پائے اور جس نے بھی اس منہ موڑ لیا وہ غرق ہوجائے گا یعنی جو اھل بیت علیھم السلام کے تمسک رکھے اسے دنیا ور آخرت میں کامیابی ملے گی اور جو انا کا دامن چھوڑ دے گا وہ دنیا اور آخرت میں ہلاک ہو جائے گا،خداوند کریم نے امتحان کے طور پر بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ ایک خاص دروازے سے بیت المقدس میں داخل ہوں اور طلب مغفرت کرتے ہوئے اس مکان میں قدم رکھیں تاکہ نجات حاصل کر سکیں۔

اسی طرح امام حسین علیہ السلام نے مدینہ چھوڑ کر میدان کربلا کا رخ کیا اور پورے راستے لوگوں کو اس کشتی پر سوار ہونے کی دعوت دیتے رہے اور آخر کار یہ کشتی میدان کربلا میں پہنچی جہاں امام حسین علیہ لسلام نے نہ صرف امت مسلمہ بلکہ نبیوں کی نبوتوں کو بھی نجات دلائی ہے  آج بھی امام حسین علیہ السلام کے چاہنے والے یہ کہتے ہیں کہ کاش ہم کربلا میں ہوتے تو امام علیہ السلام کی مدد کرتے لیکن یہ کشتی آج بھی چل رہی ہے امام حسین علیہ السلام آج بھی آواز دے رہے ہیں کہ ظلم کے خلاف خاموش نہ رہیں اور اگر کوئی کسی کا حق کا مار رہا ہے تو اس پر خاموش نہ رہیں لہذا آج بھی کشتی چل رہی ہے اور اس پر بیٹھ کر نجات حاصل کر سکتے ہیں۔

ای میل کریں