مقام ِحضرت فاطمہ معصومہ (س) امام خمینی (رہ) اور دیگر علماء کی نگاہ میں

مقام ِحضرت فاطمہ معصومہ (س) امام خمینی (رہ) اور دیگر علماء کی نگاہ میں

حضرت فاطمہ معصومه سلام الله علیها نے پہلی ذی القعدہ ۱۷۳ھ، ق کو مدینہ منورہ کی سرزمین پر اس جہان میں قدم رکھا اور صرف ۲۸ سال کی مختصر سی زندگی میں ۲۰۱ ھ، ق میں شہر قم میں اس دار فانی کو وداع کہہ دیا۔ اس عظیم القدر خاتون نے ابتدا سے ہی ایسے ماحول میں پرورش پائی

مقام ِحضرت فاطمہ معصومہ (س) امام خمینی (رہ) اور دیگر علماء کی نگاہ میں

 حضرت فاطمہ معصومه سلام الله علیها نے پہلی ذی القعدہ ۱۷۳ھ، ق کو مدینہ منورہ کی سرزمین پر اس جہان میں قدم رکھا اور  صرف ۲۸ سال کی مختصر سی زندگی میں ۲۰۱ ھ، ق  میں شہر قم میں اس دار فانی کو وداع کہہ دیا۔ اس عظیم القدر خاتون نے ابتدا  سے ہی ایسے ماحول میں پرورش پائی جہان والدین اور بہن، بھائی سمیت سب کے سب اخلاقی فضیلتوں سے آراستہ تھے۔ مدینہ میں حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام کے گھر جب حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کی ولادت ہوئی تو انہوں نے اپنی بیٹی کو آغوش میں لیا اور بیٹی کے کان میں اذان و اقامت کہنے کے بعد ان کا نام فاطمہ رکھا۔ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ ایسی خاتون ہیں کہ جن کے بارے میں حضرت امام صادق علیہ السلام نے بشارت دی تھی کہ امام موسی بن جعفر علیھما السلام کے گھر میں فاطمہ نام کی ایک بیٹی کی ولادت ہوگی جس کی شفاعت کے نتیجہ میں ان کے چاہنے والے جنت میں جائیں گے۔

تاریخ گواہ ہے کہ ائمہ اطھار علیھم السلام حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کا اپنے مقام و منزلت کی خاطر بہت احترام کیا کرتے تھے اور جب کہیں انہیں اطلاع ملتی کہ ان کے اصحاب میں سے کسی نے اپنی بیٹی کا نام فاطمہ رکھا ہے تو اس کے بارے میں مزید محبت کی تاکید کیا کرتے تھے۔ لہذا اگر ائمہ علیھم السلام کی اولاد پر ہم سرسری نگاہ ڈالیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ تمام ائمہ علیھم السلام نے اپنی بچیوں کے نام فاطمہ رکھے ہیں اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک فاطمہ نام کتنا پسندیدہ تھا۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا عالم تشیع کی نہایت گرانقدر اور والا مقام خاتون ہیں جن کا علمی مقام بھی بہت اونچا ہے۔

اگر علمائے کرام کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو تمام علماء نے ہر زمانے میں اس عظیم الشان خاتون کا احترام کیا ہے اور سب ان کی عظمت کے قائل ہیں، تمام بزرگ علماء کے نزدیک ان کی زیارت دونوں جہانوں کی خوشی اور مسرت کا ذریعہ سمجھی جاتی ہے۔ ان معززین اور بزرگان میں بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رہ) بھی تھے۔ امام خمینی (رہ) شہر قم کی عظمت کے بارے میں فرماتے ہیں: شہر قم اہل تشیع کا مرکز ہے اور اس شہر سے شیعیت پوری دنیا میں پھیلی ہے، علم بھی شہر قم سے ہی دوسرے علاقوں میں پھیلا ہے۔ شہر قم بہت سی برکتوں کا مرکز ہے، شہر قم علم و تقوی کا مرکز ہے، قم بہادری اور شجاعت کا مرکز ہے۔ قم ایسا شہر ہے جہاں ایمان، علم اور تقوی پرورش پاتے ہیں، قم کے بہت سے علماء ایسے ہیں جو دنیا میں اپنی مثال آپ تھے۔ میں شہر قم کو اچھی طرح سے پہچانتا ہوں، میں نے قم میں پرورش پائی ہے اور یہ شہر میرے لئے باعث افتخار ہے۔ امام خمینی (رہ) کے ان جملوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ امام کے نزدیک اس شہر کی عظمت اور اہمیت اس وجہ سے ہے کہ اس میں حضرت فاطمہ معصومہ مدفون ہیں۔ انقلاب کے عظیم الشان رہبر حضرت آیۃ اللہ خامنہ ای اس سلسلے میں فرماتے ہیں: یہ شہر ایک ہزار دوسو سال یا اس سے بھی زیادہ عرصے سے ہمیشہ سے ہی اہل بیت (ع) سے وابستہ شہر کے طور پر جانا جاتا رہا ہے جو خصوصیت اس شہر کو حاصل ہے اس طرح کی خصوصیت کسی دوسرے شہر کو حاصل نہیں ہے۔

مرحوم آیت اللہ العظمی بروجردی، جو ایک عظیم الشان عالمی شخصیت تھے اور انہیں بہترین رہنما سمجھا جاتا تھا، وہ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے عظیم الشان مقام کا خاص انداز میں احترام کیا کرتے تھے اور وہ شہر قم اور اہل قم کی تعریف کیا کرتے تھے۔ ان کے ایک قریبی دوست بیان کرتے ہیں کہ طے یہ تھا کہ ان کے ایک دوست تہران آئے تھے اور ان سے ملاقات کی غرض سے وہ وہاں سے قم آنا چاہتے تھے لیکن آیت اللہ بروجردی نے قم میں ان سے ملاقات کرنا قبول نہیں کیا اور وہ اس پر راضی نہیں ہوئے اور انہوں نے اس کی وجہ کے بارے میں وضاحت کی کہ اگر وہ قم آئیں اور اس کے باوجود وہ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت کے لئے نہیں جائیں گے تو یہ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی توہین ہے کہ وہ مجھ سے ملاقات کریں لیکن حرم حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت کے لئے نہ جائیں۔

مرحوم آیۃ اللہ العظمی گلپایگانی (رہ) اس عظیم الشان خاتون کا مخصوص انداز میں احترام کرتے اور وہ ان کے بہت عقیدت مند تھے اور انہوں نے کئی سال نماز صبح حرم میں ادا کی اور اس کے بعد ضریح کے پاس جا کر راز و نیاز میں بیٹھ جاتے تھے۔

مرحوم حاج مرزا جواد ملکی تبریزی حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت کا بہت شوق و اشتیاق رکھتے تھے اور وہ اپنے دل کے عارضے کے باوجود ہر روز حرم میں زیارت کے لئے تشریف لے جاتے تھے۔

شیخ عبد الجلیل قزوینی لکھتے ہیں کہ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت اور ان کا احترام صرف شیعوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اہل سنت کے علماء اور دانشور بھی ان کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتے تھے اور اس سلسلے میں ان کی فرمائش یہ ہے کہ اہل قم ان کی زیارت کے لئے جائیں اور ان کے علاوہ حکمران، علمائے شافعی اور حنفی بھی ان کی زیارت کے لئے تشریف لے جائیں اور اس کے نتیجہ میں خدا کا تقرب حاصل کریں۔

مرحوم محدث قمی کہتے ہیں کہ حضرت موسی بن جعفر علیہما السلام کی اولاد میں حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ نہایت بافضیلت ہیں جن کا حرمِ شریف قم کے مقدس شہر میں ہے اور ان کا حرم اہل قم اور دنیا کے دیگر تمام مسلمانوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے قم کی سرزمین کے بہت سارے افتخارات ہیں جن میں سے ایک حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا حرم بھی ہے۔

 

 

 

ای میل کریں