اسلام کے مقابلے میں ہمارے وجود کی کوئی حیثیت نہیں
گروہ گروہ میں تقسیم ہونے کا مطلب یہ ہیکہ ہر کوئی چاہتا ہے کہ اپنے مفاد کے لئے کام کرے یعنی ایک گروہ چاہتا ہے اس کا نام اور وہ طاقتور بن جائے جب کہ دوسرا گروہ یہ چاہتا ہے کہ اس کا نام ہو اور وہ طاقتور گروہ مانا جائے لیکن ہم اسلام کے مقابلے میں اپنے وجود کا اظہار نہیں کر سکتے اس کام سے ہمیں اختلاف کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا جس سے ہماری تحریک کو نقصان ہوگا اور ہماری یہ اسلامی تحریک کافی پیچھے رہ جائے گی ایسا نہیں ہے کہ یہ تحریک رک جائے گی رکے گی نہیں لیکن ان اختلافات کی وجہ سے تحریک پیچھے رہ جائے گی اور اس اختلاف سے صرف اس تحریک کے دشمنوں کو نقصان ہو گا اس تحریک میں بہت سارے گروہ جو اس سے پہلے بادشاہت کے ساتھ تھے لیکن اب ہمارے ساتھ شامل ہو چکے ہیں لہذا ملک کے تمام ماہرین کو مل کر اس تحریک کو آگے بڑھانا ہوگا،جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس دور میں اسلام کی کوئی ضرورت نہیں ایسے افراد صرف فتنہ اور فساد کرنا چاہتے ہیں جب کہ یہ خود بھی اسلام کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔
امام خمینی پورٹل کی رپورٹ کے مطابق اسلامی انقلاب کے بانی حضرت امام خمینی نے 31 تیر 1358 ہجری شمسی کو اتحاد اور یکجہتی کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ گروہ گروہ میں تقسیم ہونے کا مطلب یہ ہیکہ ہر کوئی چاہتا ہے کہ اپنے مفاد کے لئے کام کرے یعنی ایک گروہ چاہتا ہے اس کا نام اور وہ طاقتور بن جائے جب کہ دوسرا گروہ یہ چاہتا ہے کہ اس کا نام ہو اور وہ طاقتور گروہ مانا جائے لیکن ہم اسلام کے مقابلے میں اپنے وجود کا اظہار نہیں کر سکتے اس کام سے ہمیں اختلاف کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا جس سے ہماری تحریک کو نقصان ہوگا اور ہماری یہ اسلامی تحریک کافی پیچھے رہ جائے گی ایسا نہیں ہے کہ یہ تحریک رک جائے گی رکے گی نہیں لیکن ان اختلافات کی وجہ سے تحریک پیچھے رہ جائے گی اور اس اختلاف سے صرف اس تحریک کے دشمنوں کو نقصان ہو گا اس تحریک میں بہت سارے گروہ جو اس سے پہلے بادشاہت کے ساتھ تھے لیکن اب ہمارے ساتھ شامل ہو چکے ہیں لہذا ملک کے تمام ماہرین کو مل کر اس تحریک کو آگے بڑھانا ہوگا،جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس دور میں اسلام کی کوئی ضرورت نہیں ایسے افراد صرف فتنہ اور فساد کرنا چاہتے ہیں جب کہ یہ خود بھی اسلام کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔
اسلامی تحریک کے رہنما نے فرمایا کہ اسلام کی مخالفت کرنے والے امریکا اور سویت یونین کی غلامی کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن وہ اسلامی حکومت نہیں چاہتے ایسے افراد کو اپنی اصلاح کرنی چاہیے یہی وہ افراد ہیں جو خود کو روشنفکر کہتے ہیں ہمیں سب سے زیادہ نقصان انہی افراد سے ہوا ہے لہذا ہم سب کو مل کر اس بیماری کا علاج کرنا ہوگا اور سب کو ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر آگے بڑھنا ہوگا۔