پیری ہے اور عہد جوانی تباہ ہے
ہر دور زندگی پہ ہجوم گناہ ہے
بے راہ ہو کے پشت بہ منزل رواں ہوں میں
عمر دراز کشتہ کوری راہ ہے
آزادگان دہر کودی دوست نے پناہ
مجھ سا اسیر طوق جہاں ، بے پناہ ہے
خود خواہ و خود پسند ہے، خود سر ہے وہ بشر
جو ساری عمر اپنی ہے خود قبلہ گاہ ہے
بیٹھے ہیں بزم یار میں جو با رخ سفید
سمجھے نہ میرا غم کہ مرا رخ سیاہ ہے
آیندہ و گزشتہ پہ کڑھتا ہے، اس کے، دل
جودست بستہ رسن مال وجاہ ہے
ظلمت میں نور سے میں چلا، ہاتھ تھام لے
یہ رو سیاہ، سر بہ سر ا شیب و چاہ ہے