عید میلاد النبی (ص) ایک سنہری موقع

عید میلاد النبی (ص) ایک سنہری موقع

کائنات اور ادیان کی تاریخی سوجھ بوجھ اور تجزیہ و تحلیل کے حوالے سے ہم میں سے اکثر لوگ مسلمات و قطعیاتِ تاریخ کے خلاف قیام کئے ہوئے ہیں

تحریر: نذر حافی

 

مسلمان وہی ہے جو ختمِ نبوت کا معتقد ہے۔ ختمِ نبوّت کا یہ مطلب نہیں کہ تبلیغِ دین بھی ختم ہوگئی ہے۔ تبلیغِ دین کا بھی یہ مطلب ہرگز نہیں کہ لوگوں کو صرف نمازیں پڑھنے اور قرآن مجید کی تلاوت کا پیغام دیا جائے۔ تبلیغِ دین کا مطلب یہ ہے کہ ختم الانبیاء حضرت محمد رسول اللہﷺ نے انسانی معاشرے کی فلاح و بہبود اور دنیاوی رُشد و اخروی سعادت کیلئے جو نظام لایا تھا، اُس نظام کو انسانی معاشرے میں عملی کیا جائے۔ یہ حقیقت اظہر من الشّمس ہے کہ رسولِ خدا انسانوں کیلئے صرف بیت الخلاء سے بیت اللہ تک کے وضو و غسل اور نمازوں کے احکام لے کر نہیں آئے تھے بلکہ آپ انسانی ضرورت، ہدایت، تربیت اور رہنمائی کا سارا سامان لے کر مبعوث ہوئے تھے۔

 

آج کے ماڈرن بلکہ پوسٹ ماڈرن عہد میں حضرت انسان کو جس نظامِ حکومت، نظامِ سیاست، نظامِ اقتصاد، نظامِ مدیریت اور نظامِ تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے، وہی دینے کیلئے تو حضورﷺ تشریف لائے تھے۔ اگر ہم نے حضورﷺ سے دینِ اسلام کو اُسی طرح سے لیا ہوتا، جس طرح حضور ﷺ لائے تھے تو آج ہمارے پاس حقیقی معنوں میں ریاستِ مدینہ موجود ہوتی اور ہمارے ہاں اسلام کا تعلیمی و اقتصادی، سائنسی و تحقیقاتی، مدیریتی و اقتصادی، عسکری و سیاسی۔۔۔ نظام رائج ہوتا۔ حقیقتِ حال یہ ہے کہ قرآن و سنت کو اپنے افعال و کردار کے ساتھ محفوظ کرنے کی بجائے ہم نے الفاظ کی خوبصورت پرنٹنگ، حفاظ کرام اور محدثین کے حافظے میں محفوظ کرنے کا طریقہ اپنا لیا ہے۔ چنانچہ آج ہماری اکثریت کے پاس قرآن و سنت کے صرف الفاظ محفوظ ہیں اور انہیں کی بنیاد پر کئی لوگوں کے روزگار کا بندوبست بھی ہوگیا ہے، لیکن عملاً ہمارے پاس کوئی اسلامی و نبوی ؐسسٹم نہیں ہے۔ حقیقتِ حال تو یہ ہے کہ ہماری اکثریت کو سسٹم کی تعریف کا بھی علم نہیں، لیکن پھر بھی ہم خوش ہیں کہ مسلمانوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

 

ہم یہ سوچنے اور ماننے کیلئے تیار ہی نہیں ہیں کہ دینِ اسلام دھرتی پر بوجھ میں اضافہ کرنے کی بجائے بوجھ اٹھانے والوں کا دین ہے۔ ہم اسی پر پھولے نہیں سماتے کہ ہم نے اتنے بندوں کو مسلمان کر دیا ہے اور ہر سال دنیا میں مسلمانوں کی تعداد میں اتنے گنا اضافہ ہو رہا ہے جبکہ ہمیں یہ احساس ہی نہیں کہ ہمیں خود ہی حقیقی اسلام کا شعور نہیں ہے، ہم نے آج تک انسانی حیات اور کائنات کی خدمت کیلئے کتاب و سنت کی بنیاد پر کوئی سائنسی و فلاحی و اقتصادی و رفاہی نظام وضع نہیں کیا ہے۔ چنانچہ زمین کی گردش، گائے کے سینگ یا مچھلی کے اوپر پر زمین کا ہونا،  ان جیسی باتوں سے لے کر کورونا وائرس تک ہمارے کئی علمائے دین کے سائنسی دعوے ضِد سائنس ہیں۔

 

کائنات اور ادیان کی تاریخی سوجھ بوجھ اور تجزیہ و تحلیل کے حوالے سے ہم میں سے اکثر لوگ مسلمات و قطعیاتِ تاریخ کے خلاف قیام کئے ہوئے ہیں، تاریخِ اسلام کو بیان کرنے کے بجائے ہم نے اس پر پردے ڈالنے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے، ہماری اکثریت علمِ تاریخ اور فنِ تاریخ میں فرق تک نہیں جانتی، لیکن اس کے باوجود ہم تاریخی اختلافات کی بنا پر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ ہم نے حقائق چھپاتے چھپاتے اپنی نسلوں سے قوتِ فیصلہ، قوّتِ ارادی اور قوتِ حق گوئی چھین لی ہے۔ ہم صم بکم عمی کے پیکر بن کر ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، اختراعات و ایجادات کے دور میں ہم محض مصرف کنندگان، گداگر اور کاسہ لیس ہیں، لیکن اس کے باوجود ہم خوش ہیں کہ ہماری تعداد بڑھ رہی ہے۔

 

آج دنیا انفارمیشن ٹیکنالوجی پرشفٹ ہوچکی ہے۔ خوشی ہو یا غم، مجلسِ عزا ہو یا محفلِ میلاد، بزمِ مشاعرہ ہو یا سیمینار، لڑائیاں، جھگڑے، راضی نامے۔۔۔ اب سب کچھ میڈیا پر ہو رہا ہے۔ اب دیکھئے میڈیا پر ہم بحیثیتِ مسلمان کس چیز کی تبلیغ کر رہے ہیں۔ آج کے جدید عہد اور جدید ٹیکنالوجی کے زمانے میں بھی میڈیا پر لوگوں کو سکھانے اور تربیت و ہدایت کیلئے ہمارے پاس صرف لفظی تقریریں، میٹھی میٹھی باتیں، کچھ قصائد و اشعار اور فقہی فتاویٰ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ہم جدید دنیا کو کوئی نظام دینے میں ماضی میں بھی ناکام تھے اور آج بھی ناکام ہیں۔

 

ضرورت ہے کہ امّتِ مسلمہ فقہی و مسلکی حدو د وقیود سے بلند ہو کر اولادِ آدم کے بشری تقاضوں کو درک کرتے ہوئے ساری دنیا کیلئے ایک نظامِ حیات وضع کرے۔ مسلمانوں کی طرف سے ایک ایسا مشترکہ نظامِ حیات وضع کرنے کی ضرورت ہے، جس پر مسلمان خود بھی کاربند ہوں اور دنیا کے سامنے بھی اُسے تجربے کیلئے پیش کیا جا سکے۔ عید میلاد النبیﷺ کا دن مسلمانوں کیلئے ایک سنہری موقع ہے کہ مسلمان ایک مشترکہ نظام حیات کی تشکیل کیلئے سر جوڑ کر بیٹھیں۔

ای میل کریں