عمر آخر ہے مگرآیا مرا دلبر نہیں
ختم ہوتی ہے کہانی غم مگر آخر نہیں
جام مرگ آیا مگر میں نے نہ دیکھا جام مے
سال گزرے اور لطف غمزہ دلبر نہیں
اس قفس میں آکے مرغ جاں ہوا بے پر مگر
توڑ دے جو یہ قفس، ایسا کوئی صفدر نہیں
عاشقان روئے جاناں سب ہیں بے نام و نشاں
نامداران جہاں کو یہ ہوائے سر نہیں
منتظر ہیں صف بہ صف سب کاروان اہل عشق
کس کو سمجھائیں کہ معشوق جاں پرور نہیں
روح دے مردوں کووہ، اور عاشقوں کی جان لے
جاہلوں کواس طرح عاشق کشی باور نہیں