گر سوز عشق دل میں مرے رخنہ گر نہ ہو
سلطان عشق کی مری جانب نظر نہ ہو
جاں میں نے کی فدا رہ دیدار یار میں
کیا عذر کیجئے جو متاع دگر نہ ہو
جائے جو سر بہ شوق وصال رخ نگار
باقی رہے تو یار کی نظروں میں سر نہ ہو
شاخ شجر پہ کیسے ہو موسیٰ کو دید رخ
وہ نخل معرفت ہی اگر با ثمر نہ ہو
جب یار عشق اٹھایا خوشی سے تو خوف کیا
خاور نہ اپنی جا پہ ہو یا باختر نہ ہو
پیٹیں نہ باب عشق جو بلقیس کی طرح
اپنا تو بہ قصر سلیماں گزر نہ ہو
گر مرغ باغ قدس کو حاصل ہو اس کا وصل
محفل میں اہل عشق کی بے بال و پر نہ ہو