بتکدہ میں  مرے دلبر کا کہاں  نام و نشاں
خانہ کعبہ میں  بھی جلوہ نہیں  اس کا عیاں
خانقاہوں  میں  بھی کچھ ذکر نہیں  ہے اس کا
بند ہے اس کے لیے دیر و کنیسہ کی زباں
مدرسہ میں  ہے اگر کچھ تو وہ قیل و قال
دادگاہوں  کو ترے ذکر کی فرصت ہی کہاں
دیکھی بزم ادبا، بلکہ اسے پا بھی لیا
دیکھا میں  نے، ہے کلام ان کا معانی و بیاں
بزم رندان قلندر کا کہوں  کیا احوال
خودسروں  ہی کی ثنا تھی سحر و شام وہاں
یار دلدار ترے جام کا اک قطرہ مے
وہ عطا کرتا ہے جو دے نہ سکے کون و مکاں
اس کے غمزہ نے دیا مجھ کو وہ شعلہ جس سے
رہ گئے بار گہ قدس میں  قدسی حیراں