گزشتہ رات تم نے مجھ سے عرفانی کتابوں کے بارے میں دریافت کیا تھا، میری بیٹی(خانم فاطمہ طباطبائی، حجت الاسلام مرحوم سید احمد خمینی کی زوجہ) (اپنے اور خدا کے درمیان حائل) حجابوں کو دور کرنے کی کوشش کرو نہ کہ کتابوں کو جمع کرنے کی۔ میں اگر یہ فرض بھی کر لوں کہ تم عرفانی اور فلسفی کتابوں کو بازار سے گھر اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کردو یا اپنے ذہن کو الفاظ واصطلاحات کا مرکز بنا ڈالو اور مختلف محافل ومجالس میں اپنے گھڑی میں جمع پونجی کو پیش کردو اور حاضریں کو اپنی معلومات سے شفیتہ وفریفتہ بھی کردو تو تم نے شیطان کے فریب اور شیطان سے زیادہ خبیث، نفس امارہ کے حیلوں سے اپنے اعمال کے وزن کو اور زیادہ سنگین کردیا اور ابلیس کے جال میں پھنس کر تم نے محفل کو گرم کردیا اور خدانخواستہ علم وعرفان کا غرور تمہارے ذہن میں سما جائے کہ وہ ذہن میں ضرور آئے گا تو یہ بتاؤ کہ تم نے ان کتابوں کی جمع آوری اور الفاظ واصطلاحات کو یاد کرنے سے اپنے اور خدا کے درمیان حائل حجابوں کو زیادہ کیا ہے یا کم؟
خداوند عزوجل نے علما کی بیداری کیلئے اس آیۂ شریفہ {مَثَلُ الَّذِینَ حُمِّلُوا التَّوراۃ} کو بیان کیا ہے کہ وہ جان لیں کہ علم کی زیادتی اور جمع آوری خواہ علم شریعت ہو یا علم توحید (بندے اور حقیقت کے درمیان پڑے ہوئے) پردوں کو کم نہیں کرتی، بلکہ ان میں زیادتی اور اضافے کا باعث ہوتی ہے اور اسے چھوٹے (درجات کے) حجابوں سے (بڑے درجات کے) حجابوں تک کھینچ کر لے جاتی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تم علم، عرفان اور فلسفہ سے دوری اختیار کرو اور جہالت میں زندگی بسر کرو کہ ایسا اقدام کرنا خود راہ حقیقت سے انحراف ہے۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ اس بات کیلئے کوشش اور جدوجہد کرو کہ جو چیز تم کو اس کام کیلئے ابھارے وہ خدائی ہو اور محبوب حقیقی کیلئے ہو اور اگر تم کسی علمی مطلب کو پیش کرو تو وہ خدا کی خوشنودی کے حصول اور اس کے بندوں کی تربیت کیلئے ہو نہ کہ ریا اور خودنمائی کیلئے کہ مبادا ایسا نہ ہو کہ ان کاموں کی وجہ سے تمہارا شمار علماء سوء میں کیا جائے کہ جن کے وجود کی بدبو سے اہل جہنم کو اذیت ہوگی۔
(رہ عشق، ص ۳۲)