جو ہے حامل دل باختہ یہی بل ہے اس کے نیاز میں
یہ بعید ہے کہ وہ ناکسوں کو شریک کر سکے راز میں
کہاں اہل ہوش و خرد کو ہے مرے سوز عشق کی کچھ خبر
کہاں یہ دماغ کہ جھانک لیں در صحن سوز و گداز میں
نہیں یار عربدہ ساز نے اگر اپنے کوچہ میں راہ دی
رہو مست اپنے نیاز میں ، اسے محو رہنے دو ناز میں
ذرا یار سے کوئی جا کہے، دل سوختہ کی خبر تو لے
ہے علاج سوزش عاشقاں تری چشم بندہ نواز میں
جلے ہم توآتش ہجر میں ، تو جگر پہ مرہم لطف رکھ
کہ ہم آبشار کرم ترا، ترے دست عشق نواز میں
مرا درد عشق ہے بے دوا، نہیں چارہ ساز ترے سوا
ہے دوا تری نگہ کرم، یہ دوا حرم نہ حجاز میں
مرا کیانباہ ہو شیخ سے کہ جدا ہیں دونوں کے راستے
میں فدا ہوں اپنے ایاز پر، وہ اسیر زلف نماز میں