رسول اکرم (ص) کی سیرت میں اتحاد امت مسلمہ کی اہمیت

رسول اکرم (ص) کی سیرت میں اتحاد امت مسلمہ کی اہمیت

رسول اعظم (ص) کا پہلا اقدام یہ رہا کہ رسول اللّٰہ (ص) نے عرب و عجم کی تفریق کئے بغیر اور سفید جلد و سیاہ فام کی رعایت کئے بغیر لوگوں کو لا اله الا اللہ کے پرچم تلے جمع فرمایا

تحریر: میر حبیب حسین، مدرسہ شھابیہ قم، ایران

دستور کائنات ہے کہ جب جب بھی کوئی چیز کسی اور چیز سے متحد ہوئی ہے تو فطرتاً ان کی طاقت و قدرت میں اضافہ ہوا ہے کہ دنیا کی کوئ بھی طاقت انہیں نقصان نہیں پہنچا سکتی جیسا کہ ایک لکڑی کو توڑنا آسان ہے لیکن ۵ لکڑیوں کا ایک دستہ ہو تو اسے توڑنا زحمت سے خالی نہیں ہے اسی طرح گائے اگر تنہا ہو تو شیر اسے آسانی سے اپنا شکار بنالیتا ہے لیکن اگر چند گایوں کا جھنڈ ہو تو شیر حملہ کرنے سے گھبراتا ہے ،تاریخ بشریت بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ وہی قوم با عزت، باوقار، قدرتمند اور سرفراز رہی کہ جس قوم نے اتحاد کو اپنا محور بنایا اور وہ قومیں ذلیل وخوار ہو گئیں جنہوں نے اتحاد کو برقرار نہیں رکھا ،حتی کہ باطل پرست اپنے مشترکہ مفادات کے محور پر اتحاد برقرار رکھتے ہوئے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں، لھذا امت مسلمہ اس دستور کائنات سے کیونکر مستثنی ہو، امت مسلمہ کی عزت و سربلندی آپسی ہم آہنگی و اتحاد پر منحصر ہے ۔

رسول اکرم (ص) جو بانی اسلام ہیں جو تمام کمالات کے سرچشمہ ہیں وہ اتحاد جیسے اہم مسألہ سے کیونکر غافل ہوتے، لہذا رسول اکرم (ص) امت مسلمہ کی فلاح و بہبودی کے لئے آغاز بعثت سے اپنے آخری لمحات تک اپنی رفتار و گفتار سے قول و عمل سے امت مسلمہ کو اتحاد کی تلقین فرماتے رہے، اتحاد کے لئے رسول اکرم (ص) کے اقدامات اور ان کے اقوال مندرجہ ذیل ہیں۔

رسول اعظم (ص) کا پہلا اقدام یہ رہا کہ رسول اللّٰہ (ص) نے عرب و عجم کی تفریق کئے بغیر اور سفید جلد و سیاہ فام کی رعایت کئے بغیر لوگوں کو لا اله الا اللہ کے پرچم تلے جمع فرمایا اور پیغمبر اکرم (ص) کا یہ عمل اتحاد کو اجاگر کرتا ہے، اسی طرح جب رسول اکرم (ص) مکہ سے مدینہ تبلیغ رسالت کے لئے ہجرت فرمایا تو مدینہ میں قبیلہ اوس اور خزرج میں کئی عرصے سے شدید اختلاف تھا ،جب رسول اکرم (ص) کو اس کی اطلاع ملی تو آنحضرت (ص) نے ان دو قبیلوں کی آپسی دشمنی کو دوستی میں تبدیل فرمایا اور وہ دو قبیلے آپس میں متحد ہوگئے آنحضرت (ص) کا یہ عمل اتحاد کی اہمیت کو روشن کر رہا ہے، اور اسی طرح ہجرت کے بعد رسول اکرم (ص) نے مہاجرین و انصار کے درمیان صیغہ اخوت کو جاری فرما کر ایک دوسرے کو برادر ایمانی مقرر فرمایا اور آنحضرت (ص) کے اس اقدام سے عالم ہستی میں ایک نیا رشتہ وجود میں آیا، اور اسی طرح آنحضرت (ص) کے کئی اقوال اتحاد کی اہمیت کو تبیین کرتےہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں ۔

(١)قال رسول اللہ : أيُّهَا النّاسُ! عَلَيكُم بِالجَماعَةِ و إيّاكُم و الفُرقَةَ(ميزان الحكمه ، ح ۲۴۳۴)

"اے لوگوں جماعت کے ساتھ رہو(اتحاد کے ساتھ) اور تفرقہ بازی سے پرہیز کرو"

(۲) الجَماعَةُ رَحمَةٌ و الفُرقَةُ عَذابٌ

(كنزالعمّال ، ح ۲۰۲۴۲)

" اتحاد رحمت کا سبب ہے اور تفرقہ عذاب کا "

(۳) عَلَيكَ بِالجَماعَةِ ؛ فَإنَّما يأكُلُ الذِّئبُ القاصِيَةَ۔

(مسند أحمد ، ج ۶ ، ص ۴۴۶ )

"جماعت کے ساتھ رہو (اتحاد کے ساتھ) ورنہ بھیڑیا تنہا بھیڑ کو اپنا شکار بنالیتا ہے "

یہ تمام احادیث اور اقدامات آنحضرت (ص) اتحاد کی اہمیت کو روشن کر رہے ہیں لیکن افسوس کہ امت مسلمہ نے رسول اللہ (ص) کی تعلیمات کو بعد رسول پس پشت ڈال دیا اور دشمنان اسلام نے اس موقع کو غنیمت جان کر امت مسلمہ میں تفرقہ و پھوٹ ڈالنا شروع کردیا کہنے والے نے کیا خوب کہا ہے کہ:

یک امت کتنے فرقوں میں بنٹ گئی

دو قدم چل کے خلاف انتخاب مصطفیٰ

امید ہے کہ امت مسلمہ دشمن کی چال سے آگاہی کے بعد راہ اتحاد پر گامزن ہوجائے اور دشمنان اسلام جو ہمارے اختلافات کا سوء استفادہ کرتے آرہے ہیں ان کے منہ پر ایک زوردار تمانچہ ہوگا ۔

ای میل کریں