دل میں حسرت ہے کہ پیمانہ ترے ہاتھ سے لوں
کہاں لے جاؤں یہ غم، کس سے میں یہ راز کہوں
جان پر، آرزوئے دید میں ، کھیلا ہوں میں
آذر اسپند ہوں ، پروانہ شمع رخ ہوں
اس کی فرقت سے ہوں اس کنج قفس میں بے جاں
لے جا یہ دام کہ آزاد میں پرواز کروں
خبث آلودہ یہ خرقہ، یہ مصلائے ریا
در میخانہ پہ، موقع ہو تو پرزے کردوں
ساغر عشق سے دے یار جو اک جرعہ مے
جان مستی میں الگ خرقہ ہستی سے کروں
ایک غمزہ تو دکھائے تو پلٹ آئے شباب
تو جو چاہے تو میں آفاق سے حد سے گزروں