رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے قم کے عوام کے 9 جنوری سنہ 1978 کے تاریخی قیام کی برسی پر اس شہر سے آئے ہزاروں لوگوں سے ملاقات کی۔
انھوں نے اس موقع پر کرمان میں ہوئے غم انگيز سانحے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے نے حقیقی معنی میں ہماری قوم کو سوگوار کر دیا، البتہ ہم اِس پر اور اُس پر الزام نہیں لگانا چاہتے لیکن ہم اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں اور ان کی پشت پر موجود لوگوں کی شناخت کر کے ان کی سرکوبی کا عزم رکھتے ہیں اور ان شاء اللہ محترم ذمہ داران اس جرم میں شامل اور ان کے پس پشت موجود افراد کی شناخت کر کے انھیں ان کے جرم کی سزا دینے میں کامیاب ہوں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح غزہ کے حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے سلسلے میں بابصیرت افراد کی پیشین گوئياں رفتہ رفتہ عملی جامہ پہن رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ اس میدان کی فاتح، فلسطینی مزاحمت ہے اور جسے شکست ہوگي وہ خبیث اور ملعون صیہونی حکومت ہے، آج یہ پیشگوئی جامۂ عمل پہنتی جا رہی ہے۔
انھوں نے صیہونیوں کی جانب سے تین مہینے تک بچوں کے قتل اور جرائم کے ارتکاب کو تاریخ میں کبھی نہ فراموش کیا جانے والا واقعہ بتایا اور کہا کہ اس حکومت کی نابودی اور روئے زمین سے اس کے ختم ہو جانے کے بعد بھی ان جرائم کو فراموش نہیں کیا جا سکے گا اور تاریخ میں لکھا جائے گا کہ کبھی اس علاقے میں کچھ لوگوں کی حکومت قائم ہوئی تھی جنھوں نے چند ہفتوں میں ہزاروں بچوں کا قتل کیا تھا لیکن فلسطینی عوام کا صبر اور ان کی مزاحمت و استقامت نے ان لوگوں کو پسپائی پر مجبور کر دیا۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے تقریبا سو دن کے جرائم کے بعد صیہونی حکومت کی شکست اور ناکامیوں کی علامتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ صیہونیوں نے کہا تھا کہ ہم حماس اور مزاحمت کو ختم کر دیں گے اور غزہ کے عوام کو کہیں اور منتقل کر دیں گے مگر وہ ایسا نہیں کر سکے اور مزاحمت آج پوری طرح سے زندہ اور تازہ دم ہے جبکہ صیہونی حکومت تھکی ہوئی، شکست خوردہ اور پشیمان ہے اور جرائم پیشہ باطل کی مہر اس کی پیشانی پر لگ گئي ہے۔
انھوں نے صیہونی حکومت کی اس صورتحال کو ایک عبرت بتایا اور کہا کہ اس عبرت سے پتہ چلتا ہے کہ ظلم، منہ زوری، سامراج اور غاصبانہ قبضے کے مقابلے میں مزاحمت و استقامت کی راہ پر چلنا چاہیے اور مزاحمت کو بدستور اپنے آپ کو تیار اور اپ ٹو ڈیٹ رکھنا چاہیے، دشمن کے حربوں کی طرف سے غافل نہیں رہنا چاہیے اور خدا کی مدد سے جہاں بھی ممکن ہو دشمن پر وار کرنا چاہیے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے غزہ کے عوام کے صبر و استقامت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کے ایک چھوٹے سے گروہ نے ایک چھوٹے سے علاقے میں بڑے طمطراق والے امریکا اور اس کی گود میں بیٹھی ہوئي صیہونی حکومت کو اپنے صبر و استقامت کی طاقت سے بے بس کر دیا ہے۔
انھوں نے زور دے کر کہا کہ ان شاء اللہ وہ دن بھی آئے گا جب ایرانی قوم اور مسلم اقوام، دشمنوں اور دنیا بھر کے شیطانوں پر صبر و استقامت اور خدا پر توکل کے غلبے کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گي۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں اسی طرح قم کو قیام، معرفت اور جہاد کا شہر بتایا اور 9 جنوری سنہ 1978 کو اس شہر کے مومن عوام کے تاریخی قیام کے لازوال دروس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ عظیم واقعہ، جو پٹھو حکومت کی جانب سے امام خمینی کے خلاف لکھے گئے ایک ہتک آمیز مضمون پر احتجاج کی وجہ سے رونما ہوا تھا، بڑے بڑے واقعات میں عوامی کردار کی طاقت کو ثابت کرتا ہے۔
انھوں نے قم کے عوام کے اس اہم قیام کے بعد ایک سال کے اندر ہی طاغوت کی پٹھو اور ظالم حکومت کی سرنگونی کو، میدان میں عوام کی بھرپور موجودگي کا قابل ذکر نتیجہ بتایا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح ایران میں سامراجی محاذ کی اسٹریٹیجی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امریکا اور صیہونی حکومت نے، عوام کو میدان میں لانے اور جدوجہد اور مجاہدت کا پرچم ان کے ہاتھ میں دینے کی امام خمینی کی حکمت عملی کے مقابلے میں، ایرانی عوام کو میدان سے باہر نکالنے کی طویل مدتی اسٹریٹیجی اختیار کی اور آج بھی اس پالیسی پر عمل کر رہے ہیں۔
انھوں نے اہم مناسبتوں پر عوامی موجودگي کو معمولی بتانے کی کوشش کو، عوام کو میدان سے باہر نکالنے کا دشمنوں کا ایک حربہ بتایا اور کہا کہ اس دشمنی کی وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھ گئے ہیں کہ ایران کی پیشرفت اور سربلندی، خطے کی ایک اہم طاقت کے طور پر اس کے سامنے آنے، نظام کے لیے ایک بے نظیر اسٹریٹیجک گہرائي یعنی پورے خطے میں استقامتی فورسز تیار کرنے اور بغاوت اور مسلط کردہ جنگ سے لے کر مختلف طرح کی تمام سازشوں تک کی شکست کی وجہ، ایران کے عوام کی میدان میں موجودگي ہے۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے بڑی طاقتوں، امریکا اور صیہونی حکومت سے خوفزدہ کرنے کو، میدان سے عوام کو باہر کرنے کا ایک دوسرا ہتھکنڈہ بتایا اور کہا کہ اگر یہ ہوتا کہ ایرانی قوم فلاں طاقت سے ڈر جائے گی تو، اسلامی جمہوریہ کا وجود ہی نہیں ہوتا جبکہ اس وقت ایسی بہت سی طاقتیں جو خطے پر تسلط اور حکم چلانے کا دعوی کرتی تھیں، ایرانی قوم سے ڈرتی ہیں۔ انھوں نے عوام خاص طور پر نوجوانوں کو مستقبل کی طرف سے مایوس کرنے کے لیے دشمن میڈیا کی کوشش کو، عوام کو میدان سے باہر نکالنے کا ایک اور ہتھکنڈہ بتایا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے عوام کے اندر اختلاف پیدا کرنے کو دشمن کا ایک اور حربہ بتایا اور کہا کہ ان سازشوں سے مقابلے کی راہ، سیاسی و معاشی مسائل میں عوام کی شمولیت اور انتخابات یہاں تک کہ سیکورٹی کے مسائل میں ان کی شرکت ہے۔