طوفان رمضان سے صیہونی رژیم وحشت زدہ

طوفان رمضان سے صیہونی رژیم وحشت زدہ

امریکی حکام موجودہ حالات سے بھرپور فائدہ اٹھا کر مسلسل خطے کے دورے کر رہے ہیں

تحریر: سید رضا صدرالحسینی

 

فلسطین میں سرگرم اسلامی مزاحمتی گروہوں نے حال ہی میں ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جس میں دنیا بھر کے مسلمانوں اور سرگرم اسلامی تنظیموں سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ ماہ مبارک رمضان میں جس شکل میں بھی ممکن ہو اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے خلاف بھرپور احتجاج اور مزاحمت کا اظہار کریں تاکہ اس مبارک مہینے میں غاصب صیہونی رژیم کے خلاف "طوفان رمضان" برپا ہو جائے۔ فلسطینی مجاہد گروہوں نے دنیا بھر کے مسلمانوں سے بھرپور عوامی احتجاج شروع کرنے کی اپیل کے ساتھ ساتھ لبنان، عراق اور یمن میں اسلامی مزاحمتی گروہوں سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ ماہ مبارک رمضان میں اسرائیل کے خلاف کاروائیاں تیز کر دیں۔ لہذا جیسے جیسے ماہ مبارک رمضان کے قریب جا رہے ہیں، امریکی اور صیہونی حکمرانوں کی جانب سے جنگ بندی کی کوششیں بھی تیز ہو رہی ہیں۔

 

حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم طوفان الاقصی آپریشن سے بڑھ کر طوفان رمضان سے ہراساں اور خوفزدہ ہے جبکہ امریکی حکمران بھی فلسطین اور اسلامی دنیا میں مسلمانوں کا جوش و خروش کم کرنے کیلئے جلد از جلد جنگ بندی کے قیام کیلئے کوشاں ہیں۔ غزہ کی پٹی میں غاصب صیہونی رژیم کے مجرمانہ اقدامات اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیاں بدستور جاری ہیں۔ دوسری طرف امریکہ بھی عراق، شام اور یمن میں فوجی مہم جوئی کے ذریعے عالمی رائے عامہ کی توجہ فلسطین میں جاری نسل کشی سے ہٹا کر غاصب صیہونی رژیم کو انسان سوز مظالم بھرپور انداز میں جاری رکھنے کا موقع فراہم کرنے میں مصروف ہے۔ طوفان الاقصی آپریشن کو تقریباً 154 دن گزر چکے ہیں۔ ایسے میں ایک اہم اور قابل توجہ مسئلہ امریکہ اور اسرائیل کے درمیان اختلافات ہیں۔

 

وائٹ ہاوس اور تل ابیب کے درمیان غزہ میں جاری جنگ کے بارے میں شدید اختلافات اور عدم مفاہمت پائی جاتی ہے جس کے باعث وہ دنیا کے مختلف حصوں میں فتنہ انگیزی کر کے عالمی توجہ خود سے ہٹانے کیلئے کوشاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جنگ بندی، امن اور جنگ کے بعد غزہ کی صورتحال جیسے ایشوز بھی ابھار کر سامنے لا رہے ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے پہلے سے جاری مجرمانہ اقدامات میں ایک اور جرم کا اضافہ کرتے ہوئے اہل غزہ کو منصوبہ بندی کے تحت قحط اور بھوک کا شکار کرنے کے عمل کو مزید آگے بڑھانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس وقت غزہ کے مختلف علاقوں جیسے رفح اور خان یونس میں فلسطینی شہری انتہائی شدید حالات سے دوچار ہیں اور آئے دن بھوک اور غذائی مواد کی قلت کے باعث بچوں کی اموات میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

 

افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے اس پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ دوسرے الفاظ میں، اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم، عالمی تنظیموں کے اندھے پن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فلسطینیوں کی نسل کشی کے ساتھ ساتھ انہیں بھوک اور قحط کا شکار کر دینے اور خواتین اور بچوں کے قتل عام جیسے جرائم کی مرتکب بھی ہو رہی ہے۔ ایسے حالات میں ایک اہم اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کے اندرونی حلقوں سے جو آواز واضح طور پر سنائی دے رہی ہے اور امریکی حکام بھی شدت سے اسے بڑھاوا دینے میں مصروف ہیں وہ ماہ مبارک رمضان کے آغاز سے پہلے پہلے جنگ بندی کا قیام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غاصب صیہونی رژیم فلسطینی مجاہد گروہوں کی جانب سے ماہ مبارک رمضان میں دنیا بھر کے مسلمانوں کو طوفان رمضان کی کال دینے پر شدید وحشت زدہ ہیں۔

 

دوسری طرف امریکی حکمران بھی غزہ میں جلد از جلد جنگ بندی چاہتے ہیں تاکہ اس طرح ایک طرف ماہ مبارک رمضان میں دنیا بھر کے مسلمانوں، خاص طور پر 1948ء کی فلسطینی سرزمین کے مسلمانوں کے ممکنہ غصے کی لہر کو روک سکیں اور دوسری طرف غاصب صیہونی رژیم کو اس گرداب سے نجات دلا سکیں جس میں وہ نیٹو اور امریکہ کی حمایت کے ذریعے بری طرح پھنس چکی ہے۔ لہذا اس بات کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم ایک طرف تو جنگ بندی کی آوازیں دے رہی ہے جبکہ دوسری طرف اس نے بیگناہ فلسطینی شہریوں پر فضائی بمباری کی شدت میں اضافہ کر دیا ہے۔ اسی طرح صیہونی حکمرانوں نے رفح اور غزہ کے دیگر علاقوں کے مکینوں کو مصنوعی قحط اور بھوک کا شکار بھی کر رکھا ہے۔

 

امریکی حکام موجودہ حالات سے بھرپور فائدہ اٹھا کر مسلسل خطے کے دورے کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ویلیم برنز خطے میں حاضر ہوا ہے اور اس نے اعلان کیا ہے کہ وہ قاہرہ اور قطر کا دورہ بھی کرے گا تاکہ جس طرح بھی ممکن ہو طوفان رمضان کو روکا جا سکے۔ پس اس بات پر توجہ ضروری ہے کہ امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم کے درمیان کسی قسم کا اسٹریٹجک اختلاف نہیں پایا جاتا اور بنی گانتز کا حالیہ دورہ بھی امریکی حکمرانوں کی طرف سے سبز جھنڈی دکھائے جانے کے بعد انجام پایا ہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ ڈیموکریٹس اور جو بائیڈن بھی آئندہ صدارتی الیکشن میں جیتنے کیلئے حالیہ واقعات سے بھرپور فائدہ اٹھانے میں مصروف ہیں۔ لیکن جو چیز اہم ہے وہ یہ کہ گذشتہ 154 دنوں میں اسلامی مزاحمتی فورسز کو واضح برتری حاصل رہی ہے اور جب تک ان کی منصفانہ شرائط مان نہیں لی جاتیں وہ بھی صیہونی دشمن کی شرائط قبول نہیں کریں گے۔

ای میل کریں