وہ دن بھی آئے گاکہ ہم اس گھر سے جائیں گے
شاخ عدم پہ اپنا نشیمن بنائیں گے
شمع وجود یار سے دل کو لگائیں گے
پروانہ وار بال و پر اپنے جلائیں گے
منہ پھیر لیں گے خانقہ و صومعہ سے ہم
ساقی کے در پہ سر پئے سجدہ جھکائیں گے
صوفی کے وعظ سے نہ ہمیں حال آسکا
اب رخ کو سوئے کوئے صنم موڑ جائیں گے
گیسو یہ تیرے دام ہیں ، دانہ ہے خال لب
آزاد دام و دانہ سے خود کوبنائیں گے
کب جائیں گے نہ جانے اب اس بتکدہ سے ہم
بیگانہ گھر سے پشت کب اپنی پھرائیں گے