فرخ آں روز کہ اس قید سے آزاد ہوں میں
ہوں رہا دوری دلدار سے دلشاد ہوں میں
سر ہو میرا تیرے قدموں پہ بہ خلوت گہ عشق
لب ہوں تیرے لب شیریں پہ تو فرہاد ہوں میں
طے کروں راہ خرابات تو ہو جاؤں میں پیر
پیر رنداں کی عنایت سے دل آباد ہوں میں
وہ دن آئے کہ میں خلوت گہ عشاق میں جاؤں
طرب انگیز و طرب خیز و طرب زاد ہوں میں
راہ میخانہ ملی مجھ کو، نہ مسجد میں جگہ
یار دلدار سے کہہ، تشنہ ارشاد ہوں میں